وہ تائی جان کی طرف افطاری لے کر آئی تھی۔ تائی جان نے ٹھیک ہوتے ہی پھر یہ مزے مزے کے کھانے بنانے شروع کردیے تھے۔ صبا بھی اب مکمل طور پر صحت یاب ہوگئی تھی۔
اس نے افطاری کا تھال صبا کو دیا ہی تھا کہ اس کے پیچھے امی بھی وہاں پہنچ گئیںـ۔
’’بھائی صاحب! فائزہ کے ابو کا فون ہے۔‘‘
انھوں نے موبائل تایا جان کی طرف بڑھایا۔ وہ ہانپ رہی تھیں۔ شاید تیز قدموں سے تایا جان کے گھر آئی تھیں۔
’’میں اس سے کہہ رہا ہوں کہ ذرا بھی فکر نہ کرے لیکن …‘‘
تایا جان امی سے فون لے کر باہرنکل گئے۔
سب لوگ امی کو دیکھنے لگے… اور فائزہ کی سوالیہ نگاہوں سے تو انہیں خوف آنے لگا تھا۔
’’اب کیا نیا شوشہ چھوڑا ہے کمپنی والوں نے؟‘‘
تائی جان نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے پوچھا:
’’حیدر بھائی کو آنے دیا جا رہا ہے یا نہیں…‘‘
صبا اور فائزہ نے چونک کر انہیں دیکھا اور امی نے گھبرا کر ان دونوں کووہ دونوں استفہامیہ نظروں سے امی کو دیکھ رہی تھیں… ان کا تنفس اب بھی پھولا ہوا تھا۔
تائی جان تیوریاں چڑھائے ان کے جواب کی منتظر تھیں۔ وہ تائی جان کے ان دونوں کے سامنے پوچھے جانے پر جزبز ہوگئی تھیں۔ ’’جی…‘‘ امی مدھم آواز میں بولیں۔‘‘ وہ آرہے ہیں۔‘‘
پھر جواب دے کر وہ رکیں نہیں… وہ عموماً تیز چلنے کی عادی نہیں تھیں۔ لیکن اس وقت وہ یکدم پلٹ کر جلدی جلدی قدم اٹھاتی وہاں سے نکلتی چلی گئیں۔ فائزہ ان کی پشت کو تکے جا رہی تھی… تاوقتیکہ وہ اوجھل ہوگئیں۔
’’ملازموں کو تو جیسے غلام سمجھ رکھا ہے۔ اگر سارے ایمپلائز نے ان کا بائیکاٹ کر دیا ناں تو ہاتھ پیر جوڑتے پھریں گے۔ لوگوں میں تو کوئی خوفِ خدا ہی نہیں رہ گیا ہے جیسے… ہنہ۔‘‘
تائی جان تلخی اور غصہ سے بڑبڑاتے ہوئے صوفے پر دونوں ہاتھ ٹکا کر اٹھیں اور کچن کی طرف چلی گئیں۔ افطار کا وقت قریب تھا۔
فائزہ اب بھی اسی جانب دیکھ رہی تھی جہاں سے امی گزر کر جاچکی تھیں۔
’’یہ کیا چل رہا ہے…‘‘ اسے صبا کی حیرت میں ڈوبی آواز آئی…‘‘
’’شاید ہم سے کچھ چھپایا جا رہا ہے…‘‘ فائزہ کے کانوں نے اب صبا کی آواز سنی تھی۔
’’لیکن مجھے لگتا ہے کہ مہران کو اس معاملے کے متعلق یقینا علم ہے… تم آؤ میرے ساتھ۔ اس سے پوچھتے ہیں۔‘‘ صبا نے یقینی لہجے میں کہا۔
وہ دستک دے کر مہران کے کمرے میں چلی آئیں۔ وہ اسٹڈی ٹیبل سے ذرا فاصلے پر کرسی پر قرآن مجید کھولے بیٹھا تھا۔ اس نے رخ موڑ کر ان دونوں کو دیکھا۔
مہران کی الماری کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے۔
’’افطار سے قبل کا وقت تلاوت کا نہیں دعائیں مانگنے کا ہوتا ہے…‘‘
فائزہ وارڈروب کے پٹ آہستگی سے بند کرتے ہوئے اسے کہے بغیر نہ رہ سکی۔
’’کچھ کام تھا کیا…؟‘‘ آیت مکمل کر کے اس نے قرآن مجید میں انگلی رکھ کر اسے تھوڑا بند کیا تھا۔
’’ہاں بہت ضروری کام ہے۔‘‘ صبا نے فائزہ کا ہاتھ پکڑا او رمہران کے بیڈ پر اطمینان سے کہتے ہوئے بیٹھ گئی۔
مہران سوالیہ اور الجھی ہوئی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ ایسا تو بہت کم ہوتا تھا کہ وہ دونوں اس کے کمرے میں تشریف لائیں۔ اب آج ایسا کون سا کام آن پڑا تھا۔
’’چاچو کے متعلق ضرور کوئی ایسی بات ہے جس سے ہم ناواقف ہیں یا شاید جان بوجھ کر ہمیں لا علم رکھا جا رہا ہے۔‘‘
صبا نے بغیر تمہید کے سنجیدگی سے بات شروع کی۔
مہران نے پہلو بدلا۔ یہ تو اس نے سوچا ہی نہ تھا کہ وہ دونوں اس طرح کی بھی کوئی بازپرس اس سے کرسکتی ہیں۔
اسے فوری طور پر کچھ بھی نہیں سوجھا۔
’’ایسا کچھ نہیں ہے…‘‘ اس نے نگاہیں چرائیں۔
’’تم روزے سے ہو۔‘‘ صبا نے اسے جتایا۔
’’مہران پلیز، مجھے بتادو ابو کے ساتھ کیا مشکل ہے۔‘‘ فائزہ رو پڑنے کو تھی… اپنے ابو اسے جان سے زیادہ عزیز تھے۔ اب اس کی نگاہوں میں ان کا پریشان چہرہ گھومنے لگا تھا۔ دیکھیں دیکھیں فائزہ آپو۔ ایسی کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے۔‘‘
مہران اس صورت حال سے گھبرا گیا تھا۔ اس نے قرآن مجید بند کر کے ٹیبل پر رکھ دیا۔ اور فائزہ کو تسلی دینے لگا۔
’’بات جو بھی ہو تم ہمیں بتادو کیوں کہ اتنا تو ہم جانتے ہی ہیں کہ چاچو کسی مصیبت میں ہیں۔ اندھے بہرے نہیں ہیں، سن گن رکھتے ہیں ہم بھی۔‘‘ صبا کے لہجے میں قطعیت تھی۔
’’مجھے آپ دونوں کو بتانے سے منع کیا گیا ہے…‘‘ وہ بے چارگی سے بولا۔
’’اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ تمہارے آگاہ کرنے سے ہم پریشان ہوجائیں گے تو جان لو کہ تمہارے نہ بتانے سے ہم زیادہ ڈسٹرب ہوسکتے ہیں۔‘‘ فائزہ نے دل گیر لہجے میں کہا۔
’’بولو اب تم ایمبیسی کیوں گئے تھے؟‘‘ صبا نے مہران سے پوچھا۔
مہران نے چونک کر صبا کا چہرہ دیکھا… آپو یہ بھی جانتی ہیں؟؟‘‘
’’ہاں مجھے پتہ ہے… وہیں سے مہران کا ماتھا ٹھنکا تھا۔‘‘ وہ گہری سانس کھینچ کر بولی۔
’’ٹھیک ہے میں آپ لوگوں کو سب بتادوں گا۔‘‘ مہران نے ہتھیار ڈال دیے۔
’’لیکن ابھی نہیں… وقت دیکھیں صرف دس منٹ رہ گئے ہیں افطار کے لیے… فائزہ آپو آپ چاچو کی بہت بڑی مدد کرسکتی ہیں۔‘‘
’’کیا…‘‘ اس نے بے قراری سے پوچھا۔
’’قبولیت کی ان گھڑیوں میں صدق دل سے چاچو کے لیے دعا کیجئے گا۔‘‘
مہران اسے کیا یاد دلا رہا تھا… وہ تو عام دنوں میں بھی ابو کے لیے روزانہ دعا کرتی تھی یہ تو پھر رمضان تھا۔ قبولیت کی ان ساعتوں میں وہ کیسے اپنے ابو کے لیے دعا کرنا بھول سکتی تھی۔
’’اب جائیں… افطار یہیں کر لیجئے گا… میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو وہ سب کچھ بتا دوں گا جو مجھے معلوم ہے۔‘‘ وہ کرسی کھسکا کر اٹھ کھڑا ہوا تو مجبوراً انہیں بھی اٹھنا پڑا۔
’’تم مسجد سے جلدی گھر آجانا۔‘‘
’’جی…‘‘ اس نے پلکوں کی جنبش سے انہیں یقین دلایا۔
فائزہ کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔ ہر طرح کے خوف ناک خیالات آ رہے تھے۔ لیکن اس نے ان خیالات کو جھٹکا اور خود کو سنبھالنے اور جذبات پر قابو رکھنے کی بھرپور کوشش کی اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہی۔
افطار اس نے تایا جان کے گھر پر ہی گیا۔ تایا جان مغرب کے فورا بعد مسجد سے گھر آگئے تھے… صبا نے سب کو چائے پیش کی… چائے پیتے ہوئے تایا جان ان دونوں سے عید کے کپڑوں اور دیگر شاپنگ کی بابت دریافت کر رہے تھے… بیشتر سوالوں کے جوابات صبا ہی دے رہی تھی… اور وہ بس ہوں ہاں کر رہی تھی۔ اسے مہران کا انتظار تھا… لیکن وہ ابھی تک آیا نہیں تھا… فائزہ نے تایا جان کے چہرے پر کچھ تلاش کی کوشش کی۔ انھوں نے افطار سے قبل ابو سے بات چیت کی تھی لیکن ان کے چہرے پر کسی پریشانی کے آثار نہیں تھے۔ بلکہ وہ تو نہایت مطمئن ہو کر چائے پی رہے تھے۔ فائزہ کا دل چاہا۔ کاش تائی جان ہی ابو کے متعلق تایا جان سے کچھ پوچھ لیں… لیکن آج شاید چائے زیادہ ہی اچھی بن گئی تھی کہ ہر کوئی دل جمعی سے بس سپ لیے جا رہا تھا۔ اس نے ناراضگی بھری نگاہ صبا پر ڈالی۔ پتہ چلا کہ صبا بھی اسے گھورنے میں مشغول ہے۔
’’کیا ہے…؟‘‘ فائزہ نے خفگی سے پوچھا۔ وہی تو تھی چائے بنانے والی۔
’’ابو کچھ پوچھ رہے ہیں تم سے۔‘‘ صبا نے آنکھوں کے اشارے سے اس کی توجہ تایا جان کی طرف مبذول کرائی لیکن اس نے تو سنا ہی نہ تھا کہ تایا جان نے اس سے کیا پوچھا تھا… وہ خالی خالی نظروں سے صبا کو دیکھنے لگی۔
’’ابو وہ در اصل…‘‘ صبا نے بات سنبھالی۔‘‘ ہم رمضان سے پہلے مارکیٹ گئے تھے ناں تو کافی ساری شاپنگ اسی وقت کرلی تھی۔‘‘
’’اچھا… پھر بھی کچھ رہ گیا ہو تو بازار چلی جانا یا پھر آن لائن شاپنگ کرلو۔ کہاں تھکتی پھروگی۔‘‘
انھوں نے دو دو ہزار صبا اور فائزہ کو دیے جسے فائزہ نے بے دلی سے لے لیا تھا۔
’’پہلے آپ لوگ اس چیز کو یقینی بنائیں کہ ہمارے درمیان جو بھی گفتگو ہوگی اس کی بھنک بھی بڑوں کو نہیں ملنی چاہیے اور چاچو کو تو بالکل بھی نہیں… فائزہ آپو آپ بہت ایموشنل ہیں و گرنہ جذبات میں آکر سب اگل دیں گی…‘‘ چاچو سے بات کرتے ہوئے پتہ نہیں آپ کو کیا ہو جاتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔‘‘ صبا جلدی سے بولی … وہ تو ان کا ضبط آزمانے لگا تھا۔
وہ لوگ اب صبا کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے… اور مہران بہت سنجیدہ لگ رہا تھا۔
’’بات در اصل یہ ہے کہ … اب اگر چاچو انڈیا آجائیں گے تو پھر واپس نہیں جائیں گے…‘‘ صبا اور فائزہ خاموش ہمہ تن گوش تھیں۔
’’میرا مطلب ہے وہ جاب چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے انڈیا آرہے ہیں…‘‘
’’کیوں…؟‘‘ یہ سوال دونوں نے نہیں پوچھا۔ وہ مہران کے آگے بولنے کا انتظار کر رہی تھیں۔
’’زیادہ کچھ میں جانتا نہیں لیکن شاید کمپنی دیوالیہ ہوگئی ہے… اور دیگر ذرائع سے مطلب گھر کے علاوہ باہر سے مجھے جو معلومات ملی ہیں وہ یہ ہیں کہ اسّی فیصد کمپنیوں کا یہی حال ہے… وہ مالی پریشانیوں سے جوجھ رہی ہیں… تقریباً دس گیارہ مہینے ہوگئے ہیں چاچو کو پے منٹ نہیں مل رہی ہے…‘‘ وہ سانس لینے کو رُکا۔
یہ خبر دونوں لڑکیوں کے لیے دھماکے سے کم نہیں تھی… ایک فیملی والے شخص کو اتنے مہینوں تک سیلری نہ ملنا کتنی بڑی مصیبت ہے اس کا اندازہ دونوں کو ہی تھا۔
’’سعودی گورنمنٹ کا زیادہ زور اس بات پر ہے کہ چوں کہ باہر کے ممالک کے لوگوں کو جاپ دینے کی وجہ سے سعودی نوجوانوں کی حق تلفی ہو رہی ہے اس لیے دیگر ممالک کے لوگوں پر سعودی نوجوانوں کو ترجیح دی جائے اور دوسروں کی بجائے انہیں جاب دی جائے… اس لیے چاچو اس کمپنی کو چھوڑ کر اب کسی دوسری کمپنی میں بھی نوکری نہیں کرسکتے۔ یا یوں کہیں کہ نوکری نہیں مل سکتی۔
فائزہ اس کی بات سمجھ رتھی۔ نوکری کا چلا جانا ان سب برے خیالات اور وسوسوں سے کہیں بہتر تھا، جن میں وہ کچھ دیر سے مبتلا تھی۔ دھیرے دھیرے اس کے کشیدہ اعصاب ڈھیلے ہونے لگے تھے… لیکن مہران آگے بھی کچھ بتا رہا تھا۔
’’چاچو اب چھیالیس سال کے ہوگئے ہیں اور وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ اس عمر میں انہیں یہاں کہاں جاب مل سکے گی… اور نئے سرے سے اسٹیبلش ہونا ناممکن حد تک دشوار ہے… اسی لیے ابو چاچو کو بار بار تسلی دے رہے ہیں کہ وہ معاش کے لیے بالکل فکر مند نہ ہو… اگر جاب نہیں بھی ملی تو کچھ اور کیا جاسکتا ہے… مثلاً کوئی بزنس وغیرہ…‘‘
وہ ان دونوں کو باری باری دیکھتے ہوئے کہتا جا رہا تھا… صبا اور فائزہ دونوں کے چہرے فق ہوچکے تھے… فائزہ کی صورت پر ضبط کی سرخی صاف دیکھی جاسکتی تھی۔ بات زیادہ بڑی نہیں تھی لیکن اس کے ابو ٹینشن میں تو تھے ناں…
’’لیکن اصل مسئلہ ان کے یہاں آنے کا ہے کیوں کہ شیخ (چاچو کا باس) ایمپلائز کے پاسپورٹ نہیں دے رہا ہے۔ کسی طرح چاچو وہاں سے بخیرو عافیت نکل جائیں یہی ہمارے لیے بہت ہے…‘‘
’’شیخ کو کیا پرابلم ہے…‘‘ صبا تڑخی…‘‘ وہ پاسپورٹ کیوں نہیں دے رہا ہے؟‘‘
’’ظاہر ہے اسے مفت کے نوکر جو مل گئے ہیں… جو بنا مزدوری لیے مہینوں سے اس کا کام کر رہے ہیں۔‘‘ مہران نے طنزیہ لہجے میں اسے جواب دیا۔
’’چاچو کی اتنے مہینوں کی سیلری ان پر ڈیو ہے۔ تو کیا کمپنی انہیں اکٹھی رقم واپس کرے گی…؟‘‘ صبا نے چاچو کی تنخواہ کا دل ہی دل میں حساب لگایا۔ اندازاً بیس لاکھ رقم ہو رہی تھی…‘‘
’’حتمی تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔‘‘ مہران کہہ کر رکا… پھر سوچتے ہوئے بولا۔ ’’لیکن اندازہ ہے کہ ایسا ہونا مشکل ہے۔‘‘
’’لیکن اگر انھوں نے اتنی رقم چاچو کو ادا نہیں کی تو چاچو کا کتنا بڑا نقصان ہو جائے گا اور پھر وہ کس طرح کوئی بھی بزنس شروع کرسکیں گئے۔‘‘
صبا کو نئی فکر لاحق ہوگئی تھی۔
’’آپ کے انہی سوالوں سے بچنے کے لیے آپ کو ان باتوں سے آگاہ نہیں کیا جا رہا تھا۔‘‘
’’مہران چڑا۔‘‘ آپ کو کیوں اس چیز کی فکر ہو رہی ہے۔‘‘
اس کی ڈانٹ پر صبا منہ بنا کر چپ ہوگئی… وہ کبھی کبھی اسے الاؤنس دے دیا کرتی تھی۔
’’لیکن سعودی عرب تو فنانشلی ایک مضبوط ملک ہے… اور مالی اعتبار سے کافی مستحکم ہے تبھی تو لوگ اپنے خوابوں کی تعبیر وہاں جاکر ڈھونڈتے ہیں…‘‘ بہت دیر بعد فائزہ نے کچھ کہا تھا۔
’’آخر وہاں ایسا مالی بحران آیا کیوں؟‘‘
’’سعودی حکومت جس طرح کے سیاسی اقدامات کر رہی ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ ان کے برے دن شروع ہوگئے ہیں۔‘‘
مہران معنی خیزی سے بولا تھا۔
’’میں تو یہ سوچ کر حیران ہو رہا ہوں کہ چاچو ایک بہت قابل سول انجینئر ہیں اور جب انجینئرز کا یہ حال ہے تو سوچیں دوسروں کے لیے کتنی مشکلات کھڑی ہوئی ہوں گی۔‘‘
’’ہم م…‘‘ فائزہ نے خلاء میں دیکھتے ہوئے ہنکاری بھری… ’’خاص طور پر قطری شہریوں کے لیے…‘‘
مہران اور صبا نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’آئی تھنک میں اس کا Analysis کر سکتی ہوں…‘‘ فائزہ نے ان دونوں کو متفکرانہ نگاہوں سے تکتے ہوئے کہا…
سوشل میڈیا وہ بھی استعمال کرتی تھی۔ اور اچھی خاصی عقل مند اور ذہین لڑکی تھی۔ اسے علم تھا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا سعودی عرب کے دورے کو اہل فہم و نظر کس زاویے سے دیکھ رہے تھے۔lll