جب تنہا بیٹھ کے خوابوں کی اک دنیا دل میں بستی ہے
کچھ سپنے سچ ہو جاتے ہیں کچھ سپنے ٹوٹ بھی جاتے ہیں
وہ ایک نہایت خوب صورت شام تھی۔ سورج ڈوب کر اپنے پیچھے سرخی چھوڑ گیا تھا۔ شام دھیرے دھیرے رات کی تاریکی میں ڈھلتی جا رہی تھی۔ غافرہ گھر پر اکیلی تھی اور اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ کسی کی آہٹ پر چونک اٹھی۔ آس پاس نظریں دوڑائیں مگر دور تک کوئی نظر نہیں آیا لیکن باہر سے مسلسل ہلکی ہلکی کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔
’’کون ہے؟ ہیلو! کون ہے…؟‘‘ اس نے ہمت جمع کر کے دو تین بار آواز لگائی۔ پھر دل ہی دل میں دعا پڑھتے ہوئے دروازہ ہلکا سا کھولا اور ہلکی اوٹ سے کمرہ کے اندر جھانکنے لگی اور جو کچھ اس نے دیکھا وہ…
“Happy wedding aniversery dear wife!” (شادی کی پہلی سالگرہ بہت بہت مبارک ہو۔) ابتسام کی آواز پر اس نے چونک کر اسے دیکھا اور اس سحر سے باہر نکل آئی جو اس پر طاری ہوگیا تھا۔ سارا کمرہ چھوٹی چھوٹی خوب صورت موم بتیوں سے روشن تھا… جابجا گہرے سرخ رنگ کے گلابوں کے گلدستے تھے، صندل کا روم فریشنر اپنی خوشبو بکھیر رہا تھا اور سارا کمرہ ڈھیر سارے سرخ و سفید غباروں سے بھرا تھا جب کہ ابتسام اس کے قریب کھڑا اس کے تاثرات انجوائے کر رہا تھا۔
’’کیا ہوا بیگم صاحبہ؟ یقین نہیں آرہا…!! اب شادی کی پہلی سالگرہ روز روز تھوڑی نہ آتی ہے؟ ہم نے سوچا اپنی بیگم کو سر پرائز دیتے ہیں!’’ ابتسام نے مسکراتے ہوئے محبت و شوخی سے کہا تو غافرہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
’’ابتسام آپ…!!‘‘ شدت جذبات سے اس کی آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔
’’ارے ارے… ملکۂ جذبات…! ابھی تو ایک تحفہ اور باقی ہے… یہ دیکھو…‘‘ اس نے قریب رکھی میز سے ایک پیکٹ اٹھا لیا اور اسے تھمایا۔
’’کھولو اسے…‘‘ ابتسام کی آواز میں ایکسائٹمنٹ تھا، غافرہ مسکراتے ہوئے اس تحفہ کو کھولنے لگی۔
’’اوہ… ابتسام Thank you so much آپ بہت اچھے ہیں۔ یہ تو بہت ہی خوب صورت ہے۔‘‘ ایک خوب صورت فراک، چوڑی دار پاجامہ کے ساتھ ایک گہری سرخ ڈبیہ میں گولڈ کی وہی Chain تھی جو غافرہ نے پسند کی تھی۔
’’آپ کو یاد تھا اب تک …‘‘ غافرہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’بالکل… ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا نا کہ شادی کی سالگرہ پر یہی تحفہ دیں گے، ابتسام نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’جی یاد ہے…‘‘ غافرہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
’’اور اس دن تم نے بھی مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا وہ یاد ہے…؟‘‘
’’کیا؟؟‘‘ غافرہ اپنی یاد داشت کو کوسنے لگی۔
’’یہی کہ چاہے حالات کچھ بھی ہوں، کتنا ہی شکل وقت ہو، کیسی ہی غلط فہمی ہو تم ہمیشہ میرے ساتھ رہوگی Always on my side, tilldeath”۔
غافرہ کو یاد آگیا تھا۔ وہ جواب دینے ہی والی تھی کہ یکایک ابتسام کا چہرہ بدلنے لگا‘ سرخ ہوگیا، غصہ، اضطراب، بے یقینی اس کے چہرے سے ظاہر تھی۔
’’پھر تم نے ایسا کیوں کیا…؟ کیوں اپنا گھر چھوڑ کر آگئیں؟ بتاؤ مجھے کیوں کیا تم نے ایسا؟؟ ابتسام نے اسے جھنجوڑتے ہوئے پوچھا۔
ابتسام کے یوں بدلتے انداز کو دیکھ کر اس کا دم گھٹنے لگا اور یکایک اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ ایک نظر اپنے اطراف کے ماحول پر ڈالی، وہی کمرہ تھا اور وہی تنہائی۔ ابتسام، ان کا کمرہ، خوشبو، پھول، کینڈل سب غائب۔
اس نے گھڑی پر نظر ڈالنی چاہی لیکن آنکھوں میں آئی نمی نے وقت کو دھندلا کر دیا تھا۔
آج ان کی شادی کی پہلی سالگرہ تھی۔ اس کا دل بھر آیا۔ جو خواب اس نے دیکھا تھا وہ اس کے لاشعور میں چھپی ایک تمنا تھی وہ تمنا جو اب حسرت میں بدل گئی تھی۔ وہ سوچنے لگی کہ کاش ایسا ہی ہوتا جیسا اس نے خواب میں دیکھا اور وہ نہ ہوتا جو اس نے کر ڈالا تھا۔
’’کیا تھا ابتسام جو آپ مجھ سے گھر دلانے کا وعدہ ہی کرلیتے۔ لیکن شاید آپ کو مجھ سے کوئی لگاؤ اور کوئی محبت ہی نہیں تھی۔‘‘ اس نے ابتسام سے تصور میں بات کی۔ در اصل اب وہ دھیرے دھیرے خود ترسی کے Phase میں آرہی تھی، جہاں اسے اپنا آپ بہت مظلوم لگ رہا تھا۔ دل و دماغ میں منفی سوچیں اور خیالات تیزی سے جگہ بنانے لگے تھے اور ان کی جڑیں گہرائی تک اترتی جا رہی تھیں۔ اس نے حسب عادت تکیے کی سائیڈ سے موبائل فون نکالا اور انٹرنیٹ آن کیا۔ اس نے دیکھا کہ فوراً ہی بے شمار میسج کا Notification آگیا۔ سوشل میڈیا بعض اوقات عذابِ جان بن جاتا ہے۔ اس نے بے دلی سے واٹس اپ پر کلک کیا تو بے شمار پیغامات اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس کی سہیلیاں، کزن، بہن بھائی اور قریبی رشتہ داروں نے اسے سال گرہ پر Wishکیا تھا۔ دل کا درد کچھ اور سوا ہوگیا۔ اس نے اسکرین رول ڈاؤن کرتے ہوئے ابتسام کے نام پر کلک کیا اس کا لاسٹ سین 4;00amآرہا تھا۔ اس نے بے اختیار وقت دیکھا تو 4;10am ہو رہے تھے۔ اس نے ایک گہری سانس بھری اور ابتسام کی Profile Picture پر کلک کیا۔ شاید کچھ Related ہو؟!
یہ ایک نفسیاتی اور فطری سی بات ہے کہ انسان جس مرحلیسے گزر رہا ہوتا ہے اس کی ہر چیز اس کی عکاسی کرتی ہے۔ چاہے وہ اس کے سوشل میدیا کا DPہو یا اسٹیٹس پروفائل فوٹو ہو یا پوسٹ (اکثر لوگ تو اب اسے طزن کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور جذبات کا اظہار منفی ہو یا مثبت اس کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے یہ آج کل)۔
“peple will forget what you said, people will forgat what you did, but people will never forget you made them feel.”
غافرہ کے دل پر چوٹ سی لگ گئی۔ ’’کیا سچ میں وہ کچھ بہت غلط کر چکی ہے۔‘‘ ایک خیال نے سر اٹھایا جو اگلے ہی لمحے ابتسام کا اسٹیٹس دیکھ کے اپنی موت آپ مرگیا۔
”At Peace” ’’اوہ تو جناب اب سکون سے ہیں۔ امن میں ہیں۔ ہاں میں ہی تو تھی نا جس کی وجہ سے ان کا سکون غارت ہوچکا تھا۔ یہی تو کہا تھا ابتسام نے اور اب مزے میں ہے وہ…‘‘ اس کا دل برا ہونے لگا وہ بیزاری و بے دلی سے موبائل بند کر کے رکھنے ہی لگی تھی کہ موبائل نے ہلکی سی آواز کے ساتھ اسے خبر دی کہ ایک نیا پیغام آیا ہے۔ اس نے منہ بناتے ہوئے جیسے ہی اسکرین پر نظر دوڑائی تو حیران رہ گئی۔
ابتسام کا پیغام اسکرین پر جگمگا رہا تھا۔
’’السلام علیکم…‘‘ غافرہ کا دل اچھل کر حلق تک آگیا! تقریباً ایک ماہ کے بعد اب اس کا پیغام آیا تھا۔ وہ بھی اس نے خود سے کیا تھا۔ غافرہ نے کچھ لمحے سوچ کر ٹائپ کیا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘
’’کیسی ہو…‘‘ ابتسام کی خیریت پوچھنے کی دیر تھی کہ غافرہ کو ساری کیفیتیں یک دم سے یاد آگئیں اور تازی تازی کیفیت تو چھائی ہی ہوئی تھی جو ابتسام کا Status دیکھ کر طاری ہوئی تھیں۔
’’At peace‘‘ غافرہ نے روٹھے روٹھے انداز میں جواب لکھا۔
’’اوہ … اچھی بات ہے…‘‘ کافی دیر کے بعد ابتسام کا جواب آیا۔ ’’ہاں جب تم آرام، امن و سکون کے ساتھ رہ سکتے ہو تو میں کیوں نہیں…؟
غافرہ نے تیکھا سا جواب ٹائپ کیا۔ ابتسام بے چارہ پریشانی سے موبائل دیکھے گیا کہ اب اس کا کیا مطلب ہے۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے اپنی DPدیکھی لیکن جیسے ہی خود کے Status پر نظر پڑی تو ساری بات سمجھ میں آئی اور وہ سر پیٹ کر رہ گیا۔ کیا سبھی عورتیں سچ میں عقل سے بالکل ہی پیدل ہوتی ہیں کیا؟ یا یہ خصوصیت بیوی نامی مخلوق میں ہی پائی جاتی ہے۔
اس نے موبائل اسکرین کو دیکھتے ہوئے کچھ دیر سوچا۔ وہ خود بھی آج غافرہ کو بہت Missکر رہا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس سے کہہ دے کہ سارے گلے شکوے بھلا کر وہ گھر واپس آجائے۔ اگر وہ یہ چاہتی ہے کہ ابتسام خود اسے گھر لینے آئے تو وہ اس پر بھی تیار ہے اور پھر وہ اسے پیار و محبت سے، اعتماد میں لے کر سمجھا بھی دے گا کہ وہ ابھی علیحدہ گھر کی ضد نہ کرے لیکن انشاء اللہ وہ کبھی نہ کبھی اپنا خود کا ایک گھر بنائیں گے بالکل ویسا ہی جیسی غافرہ کی خواہش تھی اور پھر اس سے پہلے کہ اس کا دل و دماغ بدل جاتا اس نے غافرہ کو کال ملادی۔
غافرہ ابتسام کے جواب کا انتظار کر رہی تھی کہ موبائل گنگنا اٹھا: ’’ابتسام کالنگ…‘‘ غافرہ حیران سی رہ گئی۔ اسے یہ امید ہرگز نہیں تھی۔ اس نے ایک لمحے کے لیے کچھ سوچا اور فون اٹھا لیا۔
قدرت انھیں ایک موقع اور دے رہی تھی۔ یہ سچ ہے کہ شیطان عدو مبین ہے، کھلا دشمن ہے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا مگر اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ اللہ رب العزت انسان کو سنبھلنے کے لیے اور اپنی رسی تھامنے کے لیے اسے بے شمار مواقع دیتا ہے… غافرہ نے فون ریسیو کر لیا۔
’’السلام علیکم‘‘ ابتسام کی دھیمی سی آواز فاصلہ طے کرتی اس تک پہنچی۔ ’وعلیکم السلام‘ اتنے عرصے بعد اس کی آواز سن کر دل نے کچھ محسوس کیا تھا۔ کیسی ہو…؟ غافرہ کا دل بھر آیا۔ ابتسام کے حال و احوال پوچھنے پر وہ کوئی جواب ہی نہ دے سکی۔ اس کی خاموشی ابتسام نے محسوس کرلی تھی۔
’’غافرہ میرے Status updateکو دیکھو آج سے پانچ ماہ پہلے سے رکھا ہوا ہے وہ۔ تم نے اس پر دھیان نہیں دیا صرف at peaceدیکھ کے ہی ناراض ہوگئیں۔ تم ہمیشہ میرے متعلق منفی کیوں سوچتی ہو…‘‘ ابتسام کی آواز میں دکھ تھا۔ کچھ دیر دونوں طرف ہی خاموشی رہی۔
’’میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’ہم اس مسئلے پر بات کرتے ہیں نا! حل ہے میرے پاس…‘‘
’’لیکن مجھے اس حل پر کوئی بات نہیں کرنی۔ ابا نے بتایا مجھے کہ انھوں نے آپ سے بات کی ہے اور وہ مجھے آپ کے گھر لے جاکر چھوڑنا چاہتے ہیں۔ غافرہ نے ابتسام کی مکمل بات سنے بغیر ہی اپنی بات کہہ دی، جب کہ ابتسام کے اندر جو لطیف جذبے ابھر رہے تھے اور وہ جو سب مجھے بھول جانے کو تیار تھا، غافرہ کے اس انداز اور طنطنہ کو دیکھ کر تمام جذبات دم توڑنے لگے۔
’’تو…!!‘‘ ابتسام نے پھر بھی ایک کوشش کی غافرہ کے خیالات جاننے کی۔ ’’تو کیا… میں نے صاف کہہ دیا کہ جب تک آپ مجھے خود لینے نہیں آئیں گے میں اس گھر میں نہیں جانے والی… آپ نے خود مجھے نکالا تھا اور خود لینے آئیں گے۔‘‘
’’میں نے تمہیں گھر سے نہیں نکالا تھا۔ یہ بات ذہن میں بٹھا لو تم۔‘‘ ابتسام کو بھی غصہ آگیا۔ وہ خود اسے لینے جانے والا تھا مگر غافرہ کے اطوار نے اسے غصہ دلا دیا۔
’’تم گھر واپس آنا ہی نہیں چاہتیں کیا؟‘‘ ابتسام نے سرد لہجے میں کہا۔
’’میں گھر آجاؤں گی لیکن پہلے معاملہ Clear ہوجائے۔ آپ مجھے علیحدہ گھر نہیں لے کر دے سکتے نہ سہی لیکن پھر مجھے علیحدہ کچن بنا دیں۔ میں آپ کا کھانا بنایا کروں گی… مجھ سے نہیں ہوتیں خدمتیں۔
’’تمہارا دماغ خراب ہے کیا…؟ یہ نیا خناس کہاں سے آگیا دماغ میں اب‘‘ ابتسام جھنجلا اٹھا تھا۔
’’ہاں میری بات خناس ہی لگے گی نا…! لیکن یہ فائنل بات ہے۔ منظور ہو تو آجانا لینے۔‘‘ غافرہ نے یوں شاہانہ انداز میں کہا جیسے ابتسام بس اب دوڑا چلا آئے گا۔
’’تف ہے تم پر اور تمہاری سطحی سوچ پر! میں نے تو سوچا تھا کہ یوں وقت ضائع کرنے کے بجائے ہم آپس میں معاملہ سلجھا لیں گے، میں خود تمہیں لینے آجاؤں گا لیکن در اصل تم اس مسئلے کو حل کرنا ہی نہیں چاہتیں۔ ٹھیک ہے اب تم سن لو!نہ آنا تھا اور نہ ہی آؤں گا تم خود ہی آؤگی اگر آنا چاہو تو ورنہ اور ایک حل بھی ہے اگر آنا ہی نہیں چاہو تو… اور سچ تو یہ ہے کہ تمہیں صرف گھر چاہیے شوہر نہیں…! تم جیسی مادی چیزوں سے محبت کرنے والی اور ان کے لیے اپنے گھروں کو برباد کرنے والی عورتیں لعنت کے قابل ہیں۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ تم میری بیوی ہو!‘‘
فون کٹ کردیا اتنا کہہ کر ابتسام نے۔ بڑی تلخی تھی اس کے لہجے میں۔ غافرہ بت بنی بیٹھی رہی۔ ایک لمحہ کے لیے ندامت نے اسے آگھیرا۔ متفرق سوچیں و کیفیتیں اس پر حملہ آور ہوگئی تھیں۔
’’کچھ بھی ہو میں اس طرح واپس نہیں جاؤں گی۔‘‘ شیطان نے ایک خیال اس کے ذہن میں ڈالا۔ ’’اگر تو یوں ہی چلی گئی تو پھر سب کیا کہیں گے؟ سب کا سامنا کیسے کروگی اور سب یہی سمجھیں گے کہ میں بہت کمزور ہوں کہ ایک بات بھی شوہر سے منوا نہ سکی اور پھر میری کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جائے گی اس گھر میں۔‘‘
اس عدو مبین نے ایک وسوسہ ڈال دیا جو دھیرے دھیرے مضبوط ہوتا گیا۔ غافرہ نے بھی اپنے طور پر فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ جھکے گی نہیں اور وہ بھول گئی کہ رشتہ نبھانے میں اگر جھکا نہ جائے تو نہ صرف رشتہ ٹوٹ جاتا ہے بلکہ انسان بھی ٹوٹ جاتا ہے۔lll