اکیس سالہ روپا یادو NEETکا رزلٹ آنے سے پہلے تک ایک عام سی لڑکی اور غیر معروف شخصیت تھی مگر اب ملک بھر میں ہی نہیں عالمی میڈیا میں بھی اس کے چرچے ہیں۔ چرچے نام کے ہیں مگر اس کے پیچھے اس کا کام ہے۔ اس کا نام اس لیے روشن ہوا کہ اس نے NEET میں 603 نمبرات حاصل کیے اور 2612 واں رینک حاصل کیا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس میں کیا کمال ہے وہ تو 2611 طلبہ کے بعد میں آتی ہے۔ جی ہاں یہی تو خوبی ہے کہ حقیقت میں خود سے آگے رہنے والے 2611 طلبہ سے بھی حقیقت میں وہ آگے ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے لیے اس کے حالات زندگی دیکھئے:
۲۱ سالہ روپا کی محض آٹھ سال کی عمر میں اس وقت شادی کردی گئی تھی جب وہ تیسری کلاس میں پڑھتی تھی۔ راجستھان ریاست کے ضلع جے پور کے ایک گاؤں کریری کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والی روپا کی زندگی میں کچھ بھی نیا نہیں تھا اس لیے کہ راجستھان میں بچوں کی شادی کی روایت آج بھی پائی جاتی ہے۔ روپا اور اس کی بڑی بہن رُکما کی شادی ایک ہی گھر میں ہوئی تھی۔ روپا اور رکما کے شوہر شنکر لال اور ان کے بڑے بھائی بابولال بھی ایک غریب کسان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
روپا کو پڑھنے کا شوق تھا اور اس کام میں اس کے شوہر نے بھی مدد کی۔ دسویں کلاس تک وہ اپنے والد ہی کے گھر رہی اور جب وہ چھٹیوں میں سسرال جاتی تو اسے کھیتوں میں کام کرنا پڑتا۔ دسویں کلاس میں اس کا رزلٹ 84 فیصد رہا۔ روپا کی محنت جاری رہی اور اس نے انٹر سائنس میں داخلہ لے لیا۔ اب وہ سسرال میں رہتی تھی اور گھر کا کام کاج کرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی کرتی تھی اس طرح اس نے انٹر پاس کر لیا اور اس بار بھی اس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 84 فیصد نمبرات حاصل کیے۔ اس سال اس نے پہلی بار میڈیکل انٹرینس کا امتحان دیا مگر صرف 423 نمبرات ہی حاصل کرسکی۔ روپا کہتی ہیں کہ ’’میرے لیے خوشی کی بات یہ تھی کہ بغیر کسی کوچنگ کے میرے اتنے اچھے نمبرات آئے تھے۔‘‘
اب اس نے کوچنگ جوائن کرنے کی ٹھانی مگر اخراجات بڑا مسئلہ تھے۔ مگر اس کے شوہر اور ان کے بڑے بھائی نے تمام انتظامات کیے اور اس نے کوٹہ میں ایک کوچنگ جوائن کرلی۔ 2016 کے نیٹ میں اس کے نمبرات 506 رہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’2016 میں میرے 506 پوائنٹس تھے اور مجھے مہاراشٹر کا ایک کالج مل رہا تھا۔ مگر میں وہاں نہ جاسکی۔‘‘ روپا نے اس بار یعنی 2017 میں جو اسکور حاصل کیا ہے اس کی بنیاد پر اسے یقین ہے کہ اس بار اسے جے پور ہی میں کوئی کالج مل جائے گا اور وہ بہ آسانی وہاں تعلیم حاصل کرسکے گی۔
روپا کے شوہر خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے جو خواب دیکھا تھا وہ سچ ہوگیا اور ہماری محنت کامیاب ہوگئی۔ جب کہ روپا کے بہنوئی جو اس کی بڑی بہن کے شوہر بھی ہیں بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ روپا کو ڈاکٹر بنانے کے لیے جو اخراجات آئیں گے ان کے لیے اور محنت کریں گے، پیسہ جمع کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو قرض بھی لے لیں گے۔
جی ہاں یہ ہے روپا کی انفرادیت جو اسے ان تمام طلبہ میں ممتاز کرتی ہے جو بہ ظاہر اس سے 2611 قدم آگے ہیں مگر حقیقت میں وہ اس سے مقابلہ ہی نہیں کرسکتے۔ کیوں؟ یہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔
روپا یادو کی اس کامیابی نے یہ ثابت کیا ہے کہ محنت، لگن اور جدوجہد کے بل پر انسان اپنا ہدف حاصل کر ہی لیتا ہے-اور – اور یہ کہ انسان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے او حالات کا شکوہ کرنے کے بجائے متبادل راستے تلاش کرنے چاہئیں۔ جب وسائل کی کمی ہو تو اس کی بھرپائی محنت سے کی جاتی ہے۔ روپا نے ایسا ہی کیا۔ وہ عام اسکول میں پڑھتی رہی کیوں کہ معیاری اور مہنگے اسکول میں تعلیم اس کی معاشی سکت سے باہر تھی۔
روپا کے حالات یہ بھی سبق دیتے ہیں کہ آگے بڑھنے کے لیے باہمی تعاون درکار ہوتا ہے اور یہ کہ اگر ہم اپنی خاندانی اور سماجی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مدد کی روش اپنائیں تو خاندان کے ہر فرد کے لیے ترقی کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں۔
روپا کی یہ کامیابی ان لاکھوں طلبہ و طالبات کے لیے عبرت ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے کشادگی دی ہے اور وہ معاشی اعتبار سے خوش حال ہیں، ان کے والدین ان پر ہر طرح کے اخراجات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں مگر وہ خود محنت سے جی چراتے ہیں اور اپنے ہدف کے حصول کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
روپا کی زندگی اور اس کی کامیابی محنت، لگن اور قربانیوں سے عبارت ہے اور ہمارے لیے اس میں سماجی، معاشرتی اور انفرادی سطح پر نصیحت ہے۔