ہم اکثر سوچتے ہیں کہ اگر ہماری ساری خواہشیں اور ضرورتیں پوری ہوجائیں تو زندگی کس قدر خوش گوار ہوجائے۔ ہم ساری زندگی ان خواہشوں کے پیچھے بھاگتے اور اپنے دن رات ان خواہشوں کی تکمیل میں لگا دیتے ہیں اور جب ایک خواہش پوری ہو جاتی ہے، تو ہم اور نئی خواہشیں کرنے لگتے ہیں۔ انسان کی فطرت مختلف خواہشات سے بھری ہوئی ہے۔ ایک پوری ہوتے ہی دوسری کے پیچھے بھاگتے ہیں، ہمیشہ زیادہ سے زیادہ پانا چاہتے ہیں، مگر آپ نے کبھی سوچا کہ انسان کی خواہشیں پوری ہونے کے بعد اس کی ذات میں خالی پن آنے لگتا ہے اور وہ بے سکونی محسوس کرنے لگتا ہے۔
حفیظ میرٹھی نے شاید یہی بات کہی تھی :
ایک سونا پن رہے گا آرزوؤں کے بغیر
حضرت دل شہر بے بازار ہوجائیں گے آپ
یہ بات ان آرزوؤں اور خواہشات کے بارے میں ہے جو زندگی کو امنگ، حوصلہ اور جینے کا جذبہ دیتی ہیں، اور ظاہرہے کہ یہ خواہشات اور آرزوؤئیں یقینا وہ نہیں جو مادہ پرستانہ زندگی کے سبب ہم اپنی ذات کے لیے پالتے ہیں۔ یہ تو وہ آرزوئیں اور خواہشات ہیں جو ہم انسانوں کی خدمت اور لوگوں کی بھلائی کا سامان کرنے کے لیے پروان چڑھاتے ہیں۔
لیکن دنیا میں کچھ لوگ بلکہ بڑی اکثریت ایسے لوگوں کی بھی ہے جن کی زندگی اپنی ذات کے گرد گھومنے والی خواہشوں کے لیے تگ و دو کرنے میں ہی گم ہو جاتی ہے اور وہ سب کچھ حاصل کرلینے کے بعد بھی خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ کیا:
’’کیا میں تمہیں ان لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں جو سب سے زیادہ نقصان میں رہنے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی تمام جدوجہد دنیا ہی کی زندگی میں گم ہوکر رہ گئی اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔‘‘ (الکہف:۱۰۴)
معلوم ہوا کہ خواہشات اور ان کی تکمیل کی کوشش اپنے آپ میں کوئی بری چیز نہیں بلکہ یہ توزندگی کو توانائی اور عزم و حوصلہ دینے والی چیز ہے، لیکن برائی اس وقت پیدا ہو جاتی ہے جب خواہش کی تکمیل نہ ہو پانے کی صورت میں انسان غلط راستوں پر چل پڑتا ہے یا تھک ہار کر شکوہ شکایت کرنے لگتا ہے اور بعض اوقات مایوس ہوکر اللہ تعالیٰ ہی کو گویا کوسنے لگتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ان لوگوں کی طرف دیکھنا چاہیے جن کی خواہشیں کسی وجہ سے پوری نہیں ہوپاتیں۔ وہ لوگ اپنی خواہشیں پوری کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ اپنا مقصد، خواہشیں یا ضرورت پوری کرنے کے لیے صبح سے شام تک محنت کرتے ہیں، تب جاکر انہیں وہ چیز ملتی ہے۔
در حقیقت زندگی کے رنگ ہی مصائب برداشت کرنے اور مشکل حالات کا سامنا کرنے کے بعد کچھ حاصل کرنے میں پنہاں ہیں۔ ہم پر جب کوئی مصیبت آتی ہے، تو پہلی بات ہمارے منہ سے یہ نکلتی ہے کہ یہ مصیبت ہم پر ہی کیوں آئی؟ کسی اور پر کیوں نہیں آئی؟ حالاں کہ مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد جو چیز حاصل کی جائے، قدر ہمیشہ اسی کی ہوتی ہے۔ جو چیز آسانی سے مل جائے، وہ اپنی قدر کھو دیتی ہے۔
یہ بات عجیب لگتی ہے، لیکن جس طرح زندگی نشیب و فراز کا نام ہے، اس کا حسن بھی دھوپ چھاؤں اور تلخی و شیرینی میں ہے، اسی طرح زندگی کی خوب صورتی بھی مسائل سے ہے۔ ذرا سوچیے تو اگر ہمارے زندگی میں مسائل نہ ہوتے تو ہم میں سوچنے کی صلاحیت کتنی سی ہوتی؟ سب کچھ ہمیں بنا محنت کے ملتا، تو ہم کتنے کاہل اور آرام پسند ہوتے؟ ہمارے مسائل، مشکلات اور تکلیفیں بھی ہمارے لیے ضروری ہیں کیوں کہ اگر یہ نہ ہوں تو انسان میں سوچنے کی صلاحیت بھی ختم ہو جائے اور ہم اپنے رب سے بھی دور ہو جائیں۔ ہماری مشکلات ہی ہیں، جو ہماری زندگی میں حرکت پیدا کرتی ہیں اور ہمیں رب سے قریب کرتی ہیں۔ اگر یہ مسائل نہ ہوں تو غور و فکر کا کام بھی سمٹ جائے، اور آخر میں انسان کی کوئی سوچ بھی باقی نہ رہے۔ اگر مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ذہنی و جسمانی مشقت اور جدوجہد نہ کرنا پڑے تو اشرف المخلوقات کا مقصد ہی کیا ہوا۔ لہٰذا زندگی میں مشکلات آنے پر اتنا سوچ لینا چاہیے کہ اللہ ایک دروازہ بند کرتا ہے، تو سو دروازے کھولتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسے جتنی بار بھی پکارا جائے وہ پہلی بار کی طرح سنتا ہے۔ یہ مسائل اور کٹھنائیاں ہماری زندگی کے رنگوں کی طرح ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ رب اور بندے کی قربت کا باعث بھی ہیں۔
خود اللہ تعالیٰ نے انسان کو کوشش کرنے پر ابھارا ہے اور کوشش کو ہی کامیابی یا ناکامی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اسی طرح مشکلات اور مسائل کو برداشت کرنا اور صبر و ثبات کے ساتھ جھیلنے کو اجر کا ذریعہ بتایا ہے۔
انبیاء اور رسولوں کی زندگی کو دیکھتے وہ کس قدر سختیوں اور آزمائشوں کا شکار رہی حالاں کہ وہ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے۔ پس اس سے اندازہ لگایا جائے کہ آزمائشیں اور مشکلات تو زندگی کا حصہ ہیں۔ ان سے گھبرانے اور شکوہ شکایت کرنے سے کچھ حاسل نہیں۔lll