عورت ’’نصف بہتر‘‘ اور معاشرے کا اہم جزو ہے۔ یہ اس کی اہمیت ہی ہے جس کے سبب اس کا وجود ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔ مختلف تہذیبوں، مذاہب اور نظریات نے اس کی تفہیم کے لیے تخیل و تدبر کے ’’گھوڑے‘‘ دوڑائے مگر ’’مسئلہ زن ‘ وہیں کا وہیں رہا۔
’’تحریک آزادیِ نسواں‘‘ کا دل فریب نعرہ، کارل مارکس اور اینجلز نے ۱۸۴۸ میں لگایا۔ پھر دو عالمی جنگوں کے بعد کے پیدا شدہ حالات میں مردوں کی بڑی تعداد جنگ میں کام آگئی، تو عورتوں نے معاشی ضرورت کے لیے گھر سے نکلنا شروع کیا۔ صنعتی مراکز میں بھی کارکنوں کی ضرورت تھی۔ انھوں نے بغیر کسی تفریق کے مرد و عورت کو بھرتی کر کے اپنی مشینیں چالو کیں۔
عورت کے ہاتھ میں پیسہ آیا تو فطری طور پر اس نے خود پر توجہ دینا شروع کی۔ دفتروں میں مرد اور عورت کا ایک جگہ موجود ہونا، ذہنی سکون کی تلاش، تفریح کی ضرورت، نائٹ کلبوں کے ماحول نے عورت کو یہی سمجھایا کہ وہ حسین سے حسین تر نظر آئے۔ اسی دوران عورت ماڈل گرل بھی بن گئی۔
عورت کی بڑھتی مصروفیات نے گھر کے مسائل اور کام کو بوجھ سمجھنا شروع کیا، بچوں کو کون سنبھالے، ’ڈے کیئر‘ کھولے گئے، مگر یہ مسئلے کا بھرپور حل نہ تھا۔ ایک یہودی دانشور ’مالتھس‘ نے ’’آبادی کے زیادہ ہونے اور خوراک کے کم ہوجانے‘‘ کا فلسفہ پیش کیا۔ اور عورت کو یہ نعرہ بھی دیا کہ بچے قربان کردو مگر عیاشی قربان نہ کرو۔
عورت کو آزادانہ معاشرے میں ہر مرحلے پر پہلے سے بڑھ کر پذیرائی ملی۔ معاشرے نے ترقی حاصل کی۔ اب عورت نے مطالبہ کیا کہ اس کی فکری وذہنی صلاحتیں کسی طور پر مردوں سے کم نہیں ہیں۔ لہٰذا اسے سیاست میں بھی شریک کیا جائے۔ بہت پہلے اسے جو نعرہ Make no coffe but make policyدیا گیا تھا، اب اس کی تکمیل کا موقع اسے ملا۔
الغرض مغربی معاشرے نے عورت اور مرد کی مساوات کا نعرہ بلند کر کے عورت کو:
٭ معاشی آزادی دی
٭ دونوں صنفوں کے آزادانہ میل جول پر عائد تمام پابندیاں ہٹالیں، تاکہ ان کے تصور میں اسے برابری اور عزت و احترام مل سکے۔
٭ اس کی صلاحیتوں کا اعتراف و ادراک بھی کیا اور اس کو موقع فراہم کیا کہ وہ ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائے۔ جو کام مرد کرے، وہی عورت بھی انجام دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ لہٰذا تھانہ، پولیس، فوج، بنک، سیکریٹری، دفتر، کارخانہ ہر شعبے میں اسے جانے کا موقع دیا۔
٭ عورت، مرد کی قوامیت سے آزاد ہے۔ ’مرد کمائے اور عورت کھائے‘ پرانا اصول ہے۔ اب دونوں کو کمانے کا کام دیا۔ گھر کا انتظام بازار کے سپرد کیا۔
لہٰذا اب مغرب جن نتائج کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے وہ یہ ہیں کہ:
٭ اس کا خاندان تباہ ہوگیا ہے۔
٭ بچے، بوڑھے، بیمار، عورت ہر طرح کے سکون کو ترس گئے ہیں۔ معاشرے میں بن بیاہی ماؤں اور تنہا والدین والے بچوں کی کثیر تعداد ہے۔ طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا۔
٭ مغربی ممالک میں پندرہ سے بیس فی صد بچے اپنے باپوں سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ۲۰۰۷ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ۷ء۱۳ ملین عورتیں اور مرد ۸ء۲۱ ملین بچوں کی ’’تنہا والدین‘‘ کی حیثیت سے پرورش کر رہے ہیں۔
٭ عورت اپنے مختلف کردار (زوجیت، مادریت اور خانہ داری) کی ادائیگی کے باعث پریشان ہے۔ فرانس کی عورتوں نے Back to home کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ گھر جانا چاہتی ہیں کیوں کہ ان کی زندگی شدید مسائل اور مشکلات کا شکار ہے۔ پانچ ہزار عورتوں سے انٹرویو کے بعد ان کی بھاری اکثریت کی آرا کی روشنی میں ناپ سانتے کی ایڈیٹر کو کہنا پڑا کہ:
Working women are heartin sick of these do it all role models. it is time for superman to be put back in her box.
٭ معاشی جدوجہد میں عورت کی شرکت نے معاشی طو رپر خوش حالی عطا کی ہے۔ مگر یہ خوش حالی چند ہی لوگوں کے لیے ہے۔ امریکہ میں ایک فی صد امیر ترین لوگ، 95% لوگوں سے زیادہ وسائل کے مالک ہیں۔ معیارِ زندگی میں اضافہ جو بھی ہو، مگر بچوں کی دیکھ بھال، گھر کا انتظام، کھانا پکانا، یہ سب اضافی بوجھ سمجھے جاتے ہیں۔
٭ گھر سے باہر نکلی عورت کو جنسی حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسکولوں کی کم عمر بچیاں بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ جیل، فوج، سڑکیں یہاں تک کہ گھر میں شوہر یا دوست کے ہاتھوں عورت بسا اوقات جان تک ہار بیٹھتی ہے اور جنسی تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہے۔
٭ ۲۰۱۱ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک ہی نوعیت کے کام کے لیے مرد کارکن کو ایک ڈالر، مگر عورت کو ۷۷ سینٹ کی اجرت دی جاتی ہے۔ نسلی امتیاز کا شکار عورتوں کی تنخواہ اور بھی کم ہے۔
اس ساری صورت حال میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ مغرب میں حقوقِ نسواں کی تحریک مردوں کی برابری اور مساویانہ حقوق حاصل کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی، مگر عورت کو جو کچھ ملا، اس کے نتیجے میں وہ شدید اضطراب اور دکھ کا شکار ہوگئی ہے۔ یہ چشم کشا حقائق اور نتائج متقاضی ہیں کہ ہم اہل مشرق خصوصاً مسلمان اس تجربے کو نہ دہرائیں۔ جب ہمارے پاس بہترین تعلیمات، مکمل ہدایات اور واضح عملی و فکری رہ نمائی موجود ہے تو پھر ان ترقی یافتہ اقوام کی پیروی کسی طور پر بھی احسن رویہ نہیں ہے۔
ویسے تو ہم معترف ہیں کہ اسوہ حسنہ بہترین نمونہ ہے۔ حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت فاطمہ اور حضرت خنساء رضی اللہ عنہن کے کردار کو ہم معیاری و مثالی گردانتے ہیں لیکن جب اپنے گھر، سماج اور معاشرے کی عورت کو اسلامی حقوق دینے کی بات آتی ہے تو ہمیں اور ہمارے علماء کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشروں کی عورت پسماندگی کی علامت تصور کی جاتی ہے۔ دنیا ہماری موجودہ صورتِ حال پر تنقید کرتی ہے اور ہم اسلامی حقوق پر بحث کر کے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نہ ہم اپنی سوچ اور فکر کی اصلاح کرنے پر آمادہ ہیں اور دین کی روح کو اپنی زندگی میں اتارنے کے لیے تیار ہیں۔ آج بھی مسلم عورت مہر اور وراثت جیسی چیزوں سے بڑی حد تک محروم ہے اور اس کا حال اسی عورت جیسا ہے جو عام سماج کی عورت کا ہے۔
آج مغرب عورت پر زیادتی پر مبنی نظریہ آزادی نسواں کے سبب چیمپئن ہے اور دنیا بھر میں خواتین کے ذریعے اس کے نظریہ آزادی نسواں کو عملاً قبول کیا جا رہا ہے۔ جب کہ اسلام جو حقوق اور آزادی نسواں کا حقیقی چیمپئن ہے ہدف تنقید اور ملامت ہے۔ وجہ ظاہر ہے کیفیت الٹ گئی ہے۔ ایک اپنی تمام تر اندرونی کڑواہٹوں، فریب کاریوں کے باوجود آگے بڑھ رہا ہے اور دوسرا اپنی عملی کمزوریوں اور فکری پسماندگی کے سبب بیک فٹ پر ہے۔
اسلام عورت کے لیے جن حقوق و اختیارات اور آزادی کی بات کرتا ہے اس کی معمولی سی جھلک بھی ہمارے معاشروں میں نظر نہیں آتی۔ عہد نبوی میں عورتیں مسجد جاکر نماز ادا کرتی تھیں اور یہ تاریخ کا بہت معروف اور روش باب ہے آج اس کے خلاف فتوے موجود ہیں۔ یہ تو ایک مثال ہے اور بس۔
مغرب اپنی تمام روشنیوں کے باوجود اندھیر ہے اور مشرق کے مسلم معاشرے خدائی روشن ہدایات کے باوجود اندھیرے میں ڈوبے ہیں۔ جب دونوں طرف تاریکی ہی تاریکی ہے تو عورت جائے کدھر؟ یہ سوال اسلام کے ماننے والوں کے لیے بڑا سوال بن جانا چاہیے۔ lll