کل کے دن دو آڈیو کلپس موصول ہوئے۔ انداز گفتگو کسی عالم دین جیسا تھا۔ وہ خواتین کے فرائض پر بات کر رہے تھے۔ اندازہ یہ ہو رہا تھا کہ ان کے مخاطب مرد حضرا ت ہیں، کیوں کہ وہ سوال کر رہے تھے کہ تم میں سے کس کی بیوی تہجد کے لیے بیدار کرتی ہے؟ گھروں میں قناعت نہ ہونے کا سبب گھر والیوں کی بڑھتی ہوئی ہوس ہے وغیرہ۔ پھر انھوںنے اچھی عورتوں کی صفات بھی بتائیں جس کو ہم نے بڑے تحمل سے سنا۔
خواتین کے مختلف فورموں پر جب بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہم بھی خواتین کی ذمہ داریوں پر ہی بات کرتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اچھی مائیں اچھی قوم بناتی ہیں۔ لیکن کل کی آڈیوز سن کر ذہن عجیب انتشار کا شکار ہوگیا کہ کیا حقیقت یہ ہے کہ اچھے اور صالح مردوں کی دنیا کو خواتین نے بگاڑ دیا ہے؟ اور کیا بگاڑ کی ساری ذمہ داری کسی ایک جنس پر ڈالی جاسکتی ہے؟
ماں کی تربیت بہت اہم ہے۔ اسی لیے لڑکی کو اوائل عمر ہی سے اس کی ماں یہی تربیت دیتی ہے کہ اسے اچھی عورت بننا ہے، اچھی تہذیب و اقدار سیکھنا ہے، اس لیے کہ اسے دوسرے کے گھر جانا ہے…! مگر شریعت تو یہ بھی کہتی ہے کہ باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم اور تربیت ہے (حدیث مبارکہ)۔ پھر باپ نے اس تربیت کی کل کی کل ذمہ داری ماں کے حوالے کیوں کر دی؟ ہم نے اپنے ایک قریبی عزیز کے منہ سے اکثر یہ جملہ سنا ہے کہ ’’میرے بچے ماں کی وجہ سے بگڑ گئے، وہ سادہ خاتون تھیں، بچوں پر ٹھیک سے نظر نہ رکھ سکیں۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نظر رکھنے کی عمر ہے تو دو آنکھیں ہی کیوں تعاقب کریں؟ دو چار کیوں نہ ہوں؟ اس کا ایک سادہ سا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ ’’ہمارے نظام نے مرد کو معاش میں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ اس کو مزید کچھ کرنے کے لیے وقت ہی میسر نہیں ہے اور وہ بے چارہ تمام عمر عورتوں کی خواہشیں پوری کرنے میں ہی گزار دیتا ہے۔‘‘ یہ بات درست ہوسکتی ہے کہ بیوی بچوں کی خواہشوں کی فہرست درواز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ چاہے اس کے لیے باپ بیرون ملک جائے اور خاندان سے جدا ہوکر کفیل ہونے کا حق ادا کرے، مگر خاندان کی ضرورتیں اسے الٹا لٹک کر بھی پوری کرنا ہیں۔ ہم اپنے اطراف میں درجنوں ایسے خاندانوں کو جانتے ہیں جو دو یا تین سال میں ایک بار ہی گھر کے سربراہ کی شکل دیکھ پاتے ہیں جو بیرون ملک مقیم ہوتے ہیں تلاش معاش کی غرض سے۔
کوئی بھی تمدن اور معاشرہ عورت اور مرد کے اشتراک سے وجود پاتا ہے۔ جو بھی ٹرینڈ سیٹ ہوتے ہیں ان میں عورت اور مرد برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ عورتوں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے اور وہ مردوں کے سر پر سوار ہیں تو کیا اس کی ذمہ دار بھی عورتیں ہیں… اگر ماں ناسمجھ تھی تو باپ نے بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہ کی؟ اگر بیوی نافرمان تھی تو شوہر نے اپنی قوامیت کو کیوں نہ استعمال کیا؟
ہماری بچی کا سالانہ فنکشن ختم ہوا اور ہم تعلیمی ادارے سے اس کے ساتھ ہی باہر آئے تو کچھ بچیاں جو انتہائی بے باک لباسوں میں تھیں، ہم نے دیکھا کہ گاڑیوں میں ان کے باپ ان کے منتظر ہیں۔ لمحہ بھر کو اکبر الٰہ آبادی شدت سے یاد آگئے کہ کہیں سے پردے اٹھے ہیں تو کہیں کسی کی نظروں پر پڑگئے ہیں…!!!
آپ نے بھی سپر اسٹور اور شاپنگ مالز میں ایسی بے شمار خواتین دیکھی ہوں گی جو خریداری کے لیے اس طرح تیار ہوکر آتی ہیں جیسے شام کے فنکشن میں جارہی ہوں۔ وہ مرد جو اُن کے ساتھ ہوتے ہیں اور عموماً شوہر نامدار ہی ہوتے ہیں ان کو کیوں نہیں حیا آتی کہ ان کی بیوی پر کتنی نظریں اٹھیں گی۔
ایک باشعور بالغ فرد اپنے ہر عمل کے لیے خود جواب دہ ہے۔ مردوں کو اللہ نے قوامیت عطا فرمائی ہے تو ان کو اپنی قوامیت کے لیے حساس ہونا چاہیے۔ ہر چرواہے سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا، جس کے اختیارات زیادہ ہیں اس کی مسئولیت زیادہ ہے۔ یہاں یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ اختیارات تو عورتوں کے زیادہ ہیں اور وہ مزید حقوق کا شور کر کے مردوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں۔ سوال پھر یہ ہے کہ اگر عورتوں کے حقوق غصب کرتا ہے تو کون کرتا ہے؟ وہ ایک مرد ہوتا ہے چاہے باپ ہو، بھائی یا شوہر۔ اس کو مختلف رسموں کی بھینٹ چڑھا دینا یا وراثت میں حصہ نہ دینا وغیرہ۔ تو ضرورت ہے معاشرے میں مردوں کی تربیت کی کہ وہ جہاں گھر کی خواتین کے حقوق ادا کریں وہیں ان کی حدود بھی انہیں بتائیں۔ اور اگر خواتین حدود سے تجاوز کرتی ہیں تو دباؤ اختیار کریں، اس لیے کہ جہاں اللہ کی حدود ٹوٹتی ہیں وہاں ایک دوسرے کو بھی راضی رکھنا محض دھوکا ہے کہ لاطاعت فی معصیت الخالق (حدیث مبارکہ) یعنی خالق کو ناراض کر کے آپ کسی مخلوق کو راضی نہیں کرسکتے۔
ہمارا ایک خاندان سے میل جول ہے جو سودی کاروبار میں ملوث ہے۔ جب ہم نے خواتین خانہ کو متوجہ کیا کہ سود تو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے مترادف ہے، تو خواتین نے کہا کہ وہ بے بس ہیں، مردوں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتیں۔ ہم نے گھر کے مردوں کو ان کے مردوں کے پاس بھیجا تو ان کے گھر سے بے بسی کی یہ تصویر سامنے آئی کہ ہم تو نہیں چاہتے کہ سودی کاروبار کریں، لیکن ہمارے گھر کے بجٹ اتنے زیادہ ہیں کہ اس کے بغیر گزارہ ممکن نہیں ہے۔ اب یہاں بہ آسانی کہا جاسکتا ہے کہ ذمہ دار خواتین ہیں، وہ بجٹ بناتی ہیں، وہ کیوں مردوں کو حرام کمائی پر مجبور کرتی ہیں؟ تو کیا تصویر کا دوسرا رخ یہ نہیں کہ اگر مرد یہ فیصلہ کرلیں کہ ان کو سود ہیں نہیں پھنسنا، اور گھر کی خواتین پر یہ واضح کردیں کہ یہ حلال اور جائز آمدنی ہے، اس کے اندر ہی گزارہ کرنا ہے تو خواتین کچھ مشکلات ابتداء میں ضرور برداشت کریں گی مگر خواہشوں کا گراف نیچے آنا شروع ہوجائے گا، یا آمدنی کے دیگر جائز ذرائع دیگر اہل خانہ مل کر تلاش کریں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے اللہ کی عدالت میں کوئی آدمی اس لیے چھوٹ جائے گا کہ سزا اس کی عورت کو ملے کہ اس کے مجبور کرنے پر اس نے یہ اور یہ غلط کام کیے تھے…؟ ہر ایک کا الگ الگ حساب ہوگا وہاں۔
ایک آڈیو کلپ اور وائرل ہوگئی اور ہم نے کئی زبانوں سے یہ بات سنی کہ ایک بے حیا عورت چار مردوں کو جہنم میں لے جائے گی: ایک باپ، دوسرا بھائی، تیسرا شوہر اور چوتھا بیٹا۔ کیوں کہ ان چاروں سے پوچھ گچھ ہوگی کہ تم نے اس عورت کو کیوں نہ روکا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مومنہ اور صالحہ عورت کیا ان چار رشتوں کو جنت میں لے جاسکتی ہے؟ باپ، بھائی، شوہر، بیٹا جو بھی رشتہ ہو، وہاں بازپرس تنہا ہی ہونا ہے۔ ہاں بحیثیت باپ یا شوہر یا دیگر رشتوں میں قرابت داری کا بہترین حق نبھایا ہو اور خود بھی صالحیت کی زندگی گزاری ہو تو یقینا اچھا انجام منتظر ہوگا۔ لیکن اگر کوئی نافرمان عورت رشتہ داروں کو خاطر ہی میں نہ لائے اور اپنی مرضی سے مادر پدر آزاد زندگی گزارے تو مسئول تو وہ خود ہی ہے کہ اللہ نے عقل اور شعور تو سب کو دیا ہے اور دونوں راستے بھی واضح کر دیے ہیں۔
اب کہا جاتا ہے کہ وہ عورتیں ناپید ہیں جو حضرت عمر فاروق کی بہن کی شکل میں بھائی کے دل کو بدل دیں۔ ایک عورت کا دل مرد ہی کی مٹھی میں ہوتا ہے۔ عورتوں کی تلاوت میں وہ سوز نہیں کہ بھائیوں کے قلب بدل جائیں۔ یقینا بہنوں کی تلاوت میں سوز ہونا چاہیے، مگر جان رکھیے کہ حضرت عمرؓ بھی اتنے خود دار اور غیرت مند تھے کہ بہن اور بہنوئی کے مشرف بہ اسلام ہونے کی اطلاع ملنے پر ان کے قتل کے ارادے سے ہتھیار لے کر نکلے تھے۔ جنہوں نے اپنی قوت کا وہ مظاہرہ کیا کہ بہنوئی کو زخمی کر دیا کہ اپنے آبا کے دین کے منکر کیوں ہوگئے، جو اتنا حساس اور غیرت مند قلب ہوگا یقینا ہدایت کی پھوار پڑتے ہی بیدار ہوجائے گا، لہلہا اٹھے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں کتنے بھائی ہیں جن کو علم ہوکہ بہنوں کے گھر میں جو آمدنی آرہی ہے اس میں حرام کی آمیزش ہے اور غیرت مند بھائی حضرت عمر فاروقؓ کے سے جذبے سے گھر سے نکلے کہ بہن اور بہنوئی کو حدودِ خدا توڑنے پر سرزنش کرے گا۔ ہمارے خاندانوں میں سب کچھ ہو رہا ہے۔ بھائی کہتے ہیں ہم کیوں بہن کا گھر برباد کریں…؟ ہم کیوں کسی کی پرائیویسی میں دخل دیں؟ ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ یوں بنی اسرائیل کی یہ روش اپنانے سے معاشرے میں فتنے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
رات کے ڈیڑھ بجے شادی ہال میں جلدی جلدی کھانے کی میز سے برتن اٹھاتی نوجوان ویٹرز لڑکیوں سے میں نے سوال کیا کہ ان کو ڈر نہیں لگتا اتنی رات کو گھر سے باہر؟ تو ان سب کی زبان پر ایک ہی جواب تھا، جس کو ایک بچی نے لفظوں کی زبان دے دی کہ ’’مجبوری سب کچھ کراتی ہے۔‘‘ کاش اس سماج کے مرد مجبور نہ ہوتے اور اپنی قوامیت کو پہچانتے…!!lll