حضرت جویریہؓ

محمود نجمی

غزوہ بنو مصطلق کے بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: ’’جب جویریہؓ میرے سامنے آئی، تو میں حیران رہ گئی۔ وہ حسن و جمال میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی جو کوئی بھی انہیں دیکھتا دیکھتا ہی رہ جاتا۔‘‘ جویریہ حضور اکرمؐ سے عرض کرتی ہیں:

’’اے اللہ کے سچے رسولؐ میں بنو مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بدقسمت بیٹی ہوں۔ اس جنگ میں میرے شوہر مارے گئے، والد شکست کھا گئے اور اب میں بہت سے دیگر لوگوں کے ساتھ جنگی قیدی بن کر ثابت بن قیس کی ملکیت میں ہوں۔ میرا مالک مکاتبت پر راضی ہے، لیکن میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

جویریہؓ ظاہری حسن و جمال کے علاوہ آداب مجلس اور فن گفتگو میں بھی قدرت رکھتی تھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ یہ نجیب الطرفین اور نیک خاتون ہیں۔ آپؐ نے جویرہ کے عاجزی و انکساری سے کیے ہوئے سوال کو غور سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ آج ان کے سامنے مظلومیت کی تصویر بنی یہ عورت ایک بہت بڑے قبیلے کی آنکھوں کا نور ہے۔ یہ اگر مسلمان ہوگئی تو مدینہ اور اس کے آس پاس غیر مسلم اور یہودی آبادیوں میں اس کے بڑے مفید اور دور رس نتائج برآمد ہوں گے جو کفر کی اس زمین پر اللہ کی وحدت کے بہت تیزی سے پھیلنے کا سبب بنیں گے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بصیرت افروز نگاہیں آئندہ کے مناظر کی تصویر کشی کر رہی تھیں، جس میں آپؐ اس عورت کے پورے قبیلے کو مشرف بہ اسلام دیکھ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا:

’’کیا اس سے بہتر یہ نہیں کہ میں تمہاری رقم تمہارے مالک کو ادا کردوں اور تم سے نکاح کرلوں؟‘‘

جنگی قیدی مصیبت کی ماری اس بدحال عورت نے کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا کہ مدینے کے حاکم، مسلمانوں کے سربراہ اور اللہ کے نبیؐمجھے اپنی زوجہ بنانے کی پیشکش کریں گے۔ حیرت اور خوشی کے مارے ان کی آنکھیں نم ہوگئیں اور پھر اپنی دلی کیفیت کا اظہار انھوں نے یوں کیا: ’’اے اللہ کے سچے رسولؐ! اس سے بڑھ کر میری خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔‘‘

جویریہؓ پہلے ہی اسلام کی حقانیت کی قائل تھیں، لہٰذا فورا ہی اسلام قبول کرلیا۔ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رقم ادا کر کے ان سے نکاح کر لیا اور حضرت جویریہؓ ام المومنین کے بلند و اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوگئیں۔ آپ کا حق مہر چار سو درہم حضور اکرمؐ نے انہیں ادا فرما دیا۔ نکاح کے وقت آپؓ کی عمر بیس سال تھی۔ حضرت جویریہؓ کے اسلام قبول کرنے اور حضور ؐ سے نکاح کی خوشی میں انصار و مہاجرین صحابہؓ نے قبیلہ بنو مصطلق کے تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ اس طرح ان کے ۱۰۰ خاندانوں نے بہ خوشی اسلام قبول کرلیا۔ مسلمان ہونے سے پہلے حضرت جویریہؓ کا نام برہ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تبدیل فرما کر ’’جویریہؓ‘‘ رکھ دیا۔ حضرت جویریہؓ کا تعلق قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ قبیلہ بنو مصطلق سے تھا۔ آپ کے والد حارث عرب کے رئیس اور بنو مصطلق کے سردار تھے۔ آپؓ کا پہلا نکاح اپنے چچا زاد مسافع بن صفوان سے ہوا، جو غزوہ بنو مصطلق میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا اور یہ جنگی قیدی بن گئیں۔

غزوۂ بنی مصطلق شعبان پانچ ہجری کو ہوا۔ اس جنگ کا اصل سبب یہ تھا کہ نبی اکرمﷺ کو اطلاع ملی کی بنو مصطلق کا سردار حارث مسلمانوں سے جنگ کے لیے ایک بڑا لشکر تیار کر رہا ہے۔ آپؐ نے بریدہ بن حصیبؓ کو اصل صورت حال معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔ انھوں نے وہاں جاکر حالات معلوم کیے اور واپس آکر جنگ کی تیاری کی تصدیق کی۔ حضور اکرمﷺ نے فوری طور پر اسلامی لشکر کی روانگی کے احکامات جاری فرما دیے۔ شعبان ۵ ہجری کو آپﷺ مدینہ سے ۹۶ میل دور چشمہ ’’مریسیع‘‘ پر پہنچے۔ حارث کو مسلمانوں کی اس برق رفتاری کا اندازہ نہ تھا۔ اس کی فوج کو جب مسلمانوں کے آنے کی خبر ملی تو بہت سے لوگ مجاہدین اسلام کی ہیبت کے خوف سے بھاگ گئے۔ حارث بچی کچھی فوج کے ساتھ مقابلے پر آیا، لیکن بہت جلد میدان جنگ میں اپنے فوجیوں کی لاشیں چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ مسلمانوں کو اللہ نے فتح نصیب فرمائی۔

ام المومنین حضرت جویریہؓ کے والد حارث بن ابی ضرار، عرب کے بڑے سرداروں میں سے ایک تھے، انہیں یہ گوارا نہ تھا کہ ان کی بیٹی مسلمانوں کی غلامی میں رہے، لہٰذا وہ بہت سا مال و اسباب اونٹوں پر لاد کر اپنی بیٹی کی رہائی کے لیے مدینہ آئے۔ راستے میں انھوں نے قیمتی سامان سے لدے دو خوب صورت اونٹ عقیق کے مقام پر کسی گھاٹی میں چھپا دیے۔ نبی مکرمﷺ نے اسلامی روایات کے مطابق مہمان عرب سردار کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہوئے انہیں عزت و احترام سے ٹھہرایا۔ جب گفتگو کا دور چلا تو حارث نے کہا کہ ’’اے محمدﷺ! میں آپ سے اپنی بیٹی کی رہائی کے بارے میں بات چیت کرنے آیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ سب مال و اسباب آپ لے لیں اور میری بیٹی کو رہا کردیں۔‘‘ نبی محترمؐ نے تبسم فرماتے ہوئے کہا:

’’اے مہمان! یہ بات تو ٹھیک ہے، لیکن پہلے یہ تو بتائیں کہ آپ نے وادیِ عقیق میں دو اونٹ کیوں چھپائے ہیں؟‘‘ حارث کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس بات کی اطلاع ان کو مل جائے گی۔ انھوں نے حیران و پریشان ہوتے ہوئے کہا: ’’محمدﷺ! آپ کو اس بات کا پتا کیسے چلا؟‘‘ نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ بات میرے رب نے مجھے بتائی، جس کے قبضے میں میری اور تمہاری جان ہے۔‘‘ حارث پہلے ہی سے اللہ کے رسولﷺ اور ان کے رب کے احکامات کے بارے میں کافی معلومات رکھتے تھے۔ مدینہ آنے سے پہلے انھوں نے مسلمان معاشرے اور اسلامی تعلیمات کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ وہ پڑھے لکھے، باشعور اور جہاںدیدہ شخص تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو بھی ادب و آداب اور علم کی دولت سے فیض یاب کیا تھا، لہٰذا اس واقعے کے بعد انہیں کامل یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ چناں چہ انھوں نے اسی وقت کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے۔ ان کے مسلمان ہونے کے بعد نبی برحق نے فرمایا: ’’حارثؓ! اب آپ جس مقصد سے آئے ہیں، اس پر بات کرلیتے ہیں۔ ہم آپ کی بیٹی کو بلا کر آپ سے ملوا دیتے ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گی اللہ کے رسول کو قبول ہوگا۔ ام المومنین حضرت جویریہؓ کو بلایا گیا اور نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ بیٹی کو تنہائی میں ملاقات کا موقع فراہم کر دیا۔ حضرت جویریہؓ نے اپنے والد سے فرمایا کہ ’’ابا حضور! آپ کی فراہم کردہ تعلیم نے مجھے جھوٹ و سچ اور حق و باطل کا فرق سمجھنے کے قابل بنایا۔ جب تک میں باطل کے اندھیروں میں تھی مجھے حق کی روشنی کا کوئی علم ہی نہ تھا، لیکن جب میں حادثاتی طور پر اس جنگ کے نتیجے میں باطل کے اندھیروں سے نکل کر حق کی پاکیزہ روشنیوں میں آئی تو میرے شعور نے حق و باطل کے فرق کو پہچان لیا اور مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ میں نے اللہ کی وحدانیت کے اقرار میں بہت دیر کردی۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ اللہ کے رسولﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کفر کے اندھیروں سے نکال کر صراط مستقیم پر ڈال دیا۔ میں نے بہ خوشی اسلام قبول کرلیا ہے اور اللہ نے مجھے ایک بڑے انعام سے نوازا ہے۔ میں نے سرکار دو عالمﷺ سے نکاح کرلیا ہے۔‘‘

ام المومنین حضرت جویریہؓ جب اپنے والد سے یہ بات کر رہی تھیں اس وقت ان کے معصوم روحانی چہرے پر نور کی پاکیزہ کرنیں رنگ بکھیر رہی تھیں اور باپ چہیتی بیٹی کے حوروں کی طرح مقدس چہرے کو دیکھ کر نہال ہو رہے تھے۔ آنھوں سے چھلکنے والے خوشی کے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے حارثؓ گویا ہوئے ’’بیٹی! میں نے بھی اللہ کی وحدانیت اور کبریائی کا اعلان کرتے ہوئے اسلام قبول کرلیا ہے۔‘‘ جویریہؓ کے لیے یہ خوش خبری بالکل اچانک تھی۔ والد کو قبول اسلام پر مبارک باد دیتے ہوئے دونوں باپ بیٹی اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لیے اس رب العزت کے حضور سجدہ ریز ہوگئے اور پھر حضرت جویریہؓ اور حضرت حارث بن ابی ضرارؓ کے قبول اسلام کے بعد پورا قبیلہ بنو مصطلق مسلمان ہوگیا۔ جن میں آپؓ کے دونوں بھائی عبد اللہ بن حارث اور عمرو بن حارث کے علاوہ آپ کی بہن عمرۃ بنت حارثؓ بھی شامل تھیں۔ نبی مکرمﷺ کے حضرت جویریہؓ سے نکاح کے اس دور اندیش فیصلے نے ہجرت کے ابتدائی دنوں میں مسلمانوں کی اجتماعی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی قوت میں ازحد اضافہ کیا جو یہودیوں میں تبلیغ دین میں معاون و مددگار ثابت ہوا۔

بلاشبہ نبی مکرمﷺ کی تمام ازواج مطہراتؓ حسب نسب اور شان و شوکت میں بلند و ارفع مقام رکھتی تھیں رئیسوں، سرداروں اور بڑے مشہور گھرانوں کی نور نظر اور لخت جگر تھیں کہ جن کے قریب و جوار سے بھی کبھی غربت کے اندھیروں کا گزر نہ ہوا۔ حضرت خدیجۃ الکبریؓ مکے کے سب سے بڑے تاجر کی صاحب زادی اور خود بھی امیر و کبیر خاتون تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ رئیس قریش، حضرت ابو بکر صدیقؓ کی بیتی تھیں۔ حضرت حفصہؓ حضرت عمر فاروق جیسے جلیل القدر اور جری صحابی رسول اللہؐ کی صاحب زادی تھیں۔ حضرت صفیہؓ بنو نضیر اور خیبر کے رئیس اعظم کی نور نظر اور حضرت ہارون کی نسل سے تھیں۔ حضرت ام حبیبہؓ سردار مکہ، ابو سفیانؓ کی لخت جگر تھیں۔ حضرت جویریہؓ قبیلہ بنو مصطلق کے سردار حارثؓ کی بیٹی تھیں۔ حضرت زینبؓ بنت حجش اور حضرت ام سلمہؓ بھی خاندان قریش کے اعلی گھرانوں کی نازو نعم میں پلی بڑھی تھیں، جن کا رہن سہن امیرانہ اور ماحول رئیسانہ تھا۔

حضرت جویریہؓ بھی اسلام لانے سے پہلے شاہانہ ماحول میں شہزادیوں کی طرح زندگی بسر کرتی تھیں۔ جب کاشانہ حرم نبویؐ میں رونق افروز ہوئیں تو انہیں بھی عام امہات کی طرح ایک چھوٹا سا حجرہ، کھجور کی شاخوں کی چھت تو کچی مٹی کی اینٹوں کی دیواریں، وہی دروازے پر کمبل، جو کچھ ملا تو کھا لیا، ورنہ چند کھجوریں اور پانی کئی وقتوں کے لیے کافی ۔ رب کعبہ چاہتا تو اپنے محبوب کے قدموں میں دنیا بھر کے خزانوں کو جمع فرما دیتا، لیکن حکمت و مصلحت کے تقاضوں کے پیش نظر یہاں تو مطلوب و مقصود رہتی دنیا تک کے لیے فقر و فاقہ، ایثار و وفا، حب رسول اور توکل علی اللہ کی ایسی روحانی مثال قائم کرنا تھا کہ جہاں امت کی ماؤں کی حیات طیبہ ہر دور میں ثابت قدمی اور عزم و حمیت کا ایک روشن مینار نظر آئے اور جس کی پر نور کرنیں دنیا بھر کے اندھیروں میں اجالا کردیں۔

ام المومنین حضرت جویریہؓ اپنا زیادہ تر وقت عبادت میں گزارتیں۔ ایک روز صبح نماز فجر کے بعد دعا میں مشغول تھیں کہ حضور اکرمؐ ادھر سے گزرے، آپؓ کو دیکھا اور چلے گئے۔ دوپہر کے وقت جب آپؐ آئے تو دیکھا کہ وہ اسی حالت میں بیٹھی ہیں، جس حالت میں صبح چھوڑا تھا۔ ان کی عبادت کے شغف کو دیکھتے ہوئے نبی اکرمؐ نے انہیں کچھ خاص کلمات سکھائے اور فرمایا اگر تم یہ پڑھتی رہیں تو نفلی عبادت سے بھی زیادہ ثواب ملے گا۔ (مسلم)

ام المومنین حضرت جویریہؓ نہایت متحمل مزاج اور بردبار خاتون تھیں۔ میانہ روی، قناعت، سخاوت و وسیع القلبی اور حب رسولؐ ان کے خاص اوصاف تھے۔ فصیح و بلیغ مقررہ تھیں۔ ویسے تو نبی اکرمؐ تمام ازواج سے محبت و احترام سے پیش آتے، لیکن حضرت جویریہؓ کی عبادت اور تقویٰ کو بہت پسند فرماتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’میں نے کسی بھی عورت کو جویریہؓ سے بڑھ کر اپنی قوم کے حق میں مبارک نہیں پایا، جن کے سبب بنو مصطلق کے سیکڑوں خاندانوں کو کفر و شرک سے آزادی نصیب ہوئی۔ حضرت جویریہؓ سے 7 احادیث منقول ہیں۔ آپؓ نے تمام زندگی مدینہ ہی میں گزاری۔ ۵۰ ہجری میں ۶۵ سال کی عمر میں وفات پائی اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔ محسن انسانیت سرکار دو جہاں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ام المومنین حضرت جویریہؐ بنت حارث نے اپنی باقی زندگی قوم کی ماؤں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کردی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں