میت کو غسل دینے کے سلسلے میں لوگ تصور کرتے ہیں کہ یہ کافی دشوار کام ہے۔ معاشرے میں یہ بھی تصور ہے کہ یہ کام اسی شخص کو کرنا چاہیے جو چیزوں کو اچھی طرح جانتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کام میں آگے بڑھنے سے جھجکتے ہیں۔ کبھی کبھی اور کہیں کہیں تو میت کو غسل دینے والے آدمی کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑ جاتا ہے۔ یہ عجیب سوچ ہے لوگوں کی۔ حالاں کہ میت کا غسل بھی وہی ہے جو ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کرتے ہیں۔ چناں چہ ہر مسلمان، باشعور فرد اس خدمت کو انجام دے سکتا ہے اور یہ باعث اجر و ثواب بھی ہے۔ ذیل میں ہم غسل میت کے مسائل پر رہ نمائی کریں گے۔
رسولِ پاکﷺ کی زندگی سے اس مسئلہ پر بھی مکمل رہ نمائی موجود ہے اور آپ نے امت کو بتا دیا کہ میت کو غسل دیتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھا جانا چاہیے کیوں کہ اس تحریر کا مقصد مرد و خواتین کو یہ بتانا ہے کہ وہ اس کام کو کس طرح انجام دیں اس لیے مرحلہ وار چیزوں کا بیان مناسب ہوگا۔
سب سے پہلا مرحلہ میت کو غسل دینے تک پہنچانے کا ہوتا ہے اس سلسلے میں پہلا کام مناسب جگہ کا انتظام ہے جہاں گندگی نہ ہو، پانی کو بہایا جاسکے اور جہاں کشادگی ہو اور ساتھ ہی پردہ بھی۔ پرانے زمانے میں لوگ کچے گھروں میں رہا کرتے تھے تو گھر کے ہی ایک کونے میں گڈھا کھود کر پانی جمع کرلینے کا انتظام کرلیتے تھے، خاص طور پر خواتین کو غسل تو اندر کے مکان میں ہی دیا جاتا تھا کہ پردہ کا مناسب نظم ہوسکے۔
اس کے بعد میت کو اس رخ سے حسب موقع لٹایا جائے کہ غسل دینے والے کا داہنا ہاتھ بہ آسانی چل سکے اور اسے دوسری جانب جاکر بھی کام کرنے کی گنجائش باقی ہو۔ اس لیے کہ میت کو غسل دیتے وقت دائیں اور بائیں دونوں جانب سے پانی بہانا ہوتا ہے۔ اس کے لیے دوسری جانب جانے کی ضرورت بھی ہوسکتی ہے۔ مناسب حال تختے پر لٹالینے کے بعد کپڑے اتارنے کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تیز دھار دار قینچی کے ذریعے کپڑوں کو کاٹ کر جسم سے اتار دیا جائے۔ اس کے بعد غسل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
ام عطیہ انصاریہؓ سے روایت ہے کہ جب آپ کی بیٹی کا انتقال ہوا تو آپ ہمارے پاس آئے اور فرمایا:
اسے تین مرتبہ، پانچ مرتبہ یا ضرورت سمجھو تو اس سے زیادہ مرتبہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخر میں اس میں کا فور یا کافور جیسی (کوئی خوشبودار چیز) ملا دو، جب فارغ ہو جاؤ تو مجھے بتاؤ۔ جب ہم فارغ ہوگئیں تو آپ کو آگاہ کیا، پھر آپ نے اپنا ازار ہمیں دیا اور فرمایا کہ اسے اس میں لپیٹ دو۔
حضرت ام عطیہ انصاریہؓ کی روایت ہے جو اوپر والے واقعہ ہی کا حصہ معلوم ہوتی ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول پاکؐ ہمارے پاس آئے اس وقت جب ہم ان کی بیٹی کو وفات کے بعد غسل دے رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ دائیں جانب سے وضو کے اعضاء سے شروع کرنا۔‘‘اور ایک حدیث میں یہ طریقہ کچھ اس طرح بیان ہوا ہے:
’’پہلی بار میت کے جسم کو صاف پانی سے دھویا جائے دوبارہ بیری کے پتے ملے پانی سے اور تیسری بار کافور ملے پانی سے اور کافور سجدے کے مقامات پر لگایا جائے۔‘‘
جب کہ حضرت ابن مسعود کی ایک روایت میں ہے کہ ’’میت کے سجدے کے مقامات پر کافور لگانا چاہیے۔‘‘
ان ساری احادیث کے مطالعے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ میت کے غسل کے سلسلے میں کوئی خاص طریقہ نہیں اپنانا ہے بلکہ جس طرح ہم عام حالات میں غسل کرتے ہیں وہی ترتیب لازم آئے گی۔ اس تفصیل کو ہم اس انداز میں ترتیب دیں۔
۱- نہلانے کا عمل میت کے داہنے جانب سے وضو کے اعضاء دھونے سے شروع کریں۔
۲- پہلے داہنا ہاتھ اور پھر بایاں ہاتھ دھوئیں۔
۳- اچھی طرح میت کا منہ اندر سے صاف کریں کہ منہ میں اگر کوئی چیز ہو تو صاف ہو جائے۔
۴- میت کی ناک میں پانی ڈال کر اچھی طرح صفائی کریں۔
۵- دونوں ہاتھوں اور پیروں کو اچھی طرح دھوئیں۔
پانی کے سلسلے میں ہمارے یہاں یہ طریقہ رائج ہے کہ بیری کے پتے ڈال کر پانی کو گرم کیا جاتا ہے اور میت کو عام طور پر گرم پانی ہی سے غسل دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ گرم پانی سے صفائی کا عمل زیادہ بہتر انداز میں ہوتا ہے۔ یہی مقصد بیری کے پتوں کے شامل کرنے کا ہے۔ دیگر احادیث میں بیری کے پتوں کے علاوہ دیگر پودوں کے پتوں کا بھی ذکر ہے جو عرب میں اس مقصد سے استعمال ہوتے تھے۔ ؟؟ حدیث میں تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ یا اور زیادہ مرتبہ پانی بہانے کی بات آتی ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ کام، وتر مرتبہ یعنی تین، پانچ، سات، نو وغیرہ مرتبہ کرنا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں وتر کا بھی ذکر ہے۔ تیسری حدیث میں پانی کی الگ الگ قسمیں کر دی گئی ہیں کہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ کافور ملانے کی حکمت جسم کی کسی بھی قسم کی ناگوار مہک کو خوشبو میں تبدیل کرنا ہے۔ کافور ہے تو ٹھیک اگر نہیں ہے تو اس کے لیے اور کوئی خوش بودار چیز استعمال کی جاسکتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ذکر ہے کہ ’’میت کے پیٹ پر ’سیف‘ رکھا جائے۔‘‘ سیف وہاں کا ایک خوش بودار پودا ہوتا تھا جس کی مہک خوشگوار ہوتی ہے۔
سجدے کے مقامات جیسے پیشانی ہتھیلیوں اور گھٹنوں وغیرہ پر کافور لگانے کا حکم ہے۔ اسی طرح صاف اور خشک کپڑے سے جسم کو سکھانے کی بھی ہدایت دوسری احادیث میں موجود ہے۔
اب کاموں کو اس طرح انجام دیں۔
۱-داہنی جانب سے پانی بہاکر جسم دھونے سے پہلے اچھی طرح استنجے کے مقامات کو دھو ڈالیں۔ اس کے لیے ہاتھ میں دستانے پہن لیں اور پیٹ کو اچھی طرح دبا کر دیکھیں کہ اگر کچھ نجاست نکلنے والی ہو تو نکل جائے اور پھر اسے دھو ڈالیں۔ کچھ جگہ لوگ اس کام کے لیے ڈھیلے کا استعمال لازمی سمجھتے ہیں جو پانی کی موجودگی میں غیر معقول ہے۔
۲- اب دا ہنی جانب سے پانی ڈالنا شروع کریں اور صابن وغیرہ کا استعمال کرنا ہو تو کریں۔
۳- دا ہنی جانب سے فارغ ہونے کے بعد بائیں پہلو کو دھوئیں۔
۴- کروٹ دلا کر اچھی طرح دائیں سے نیچے اور پھر بائیں سے نیچے کی طرح پانی ڈالیں اور ذہن میں رکھیں کہ کوئی بال برابر جگہ بھی رہ نہ جائے۔
۵- تین، پانچ یا سات مرتبہ پانی بہا کر اطمینان کرلیں کہ جسم اچھی طرح صاف ہوگیا ہے۔
۶- اب کسی خشک کپڑے سے میت کے جسم کو سکھا کر کفن پہنانے کے لیے منتقل کریں لیکن اس سے پہلے مسہری پر کفن لگائیں۔ کفن لگانا بھی سمجھ لیں۔
ہمارے یہاں مردوں کو عام طور پر تین کپڑوں میں دفن کیا جاتا ہے۔
۱- ازار یا تہبند
۲- کرتا
۳- بڑی چادر جس میں لپیٹ کر میت کو سر اور پیروں کی جانب سے باندھ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مسہری کے اوپر بھی ایک بری چادر استعمال ہوتی ہے جو بعد میں عام طور پر میت کو قبر میں اتارنے میں مدد کرتی ہے۔ اجزائے کفن کے سلسلے میں یہ ہدایت ہے کہ وہ بھی وتر ہے تو اچھا ہے۔
خواتین کے کفن میں پانچ حصے یہاں لازم تصور ہوتے ہیں اور یہی رائج ہیں۔
۱- ازار یا تہ بند
۲- کرتا
۳- سینہ بند
۴- اسکارف
۵- اوپر کی چادر جس میں میت کو لپیٹ کر سر اور پیروں کی جانب باندھ دیا جاتا ہے۔
مسہری پر کفن لگانا ایک تکنیکی کام ہے جس میں توجہ درکار ہے۔ اگر ترتیب سے چیزوں کو نہ لگایا جائے تو مشکل ہو جاتی ہے۔ کپڑے مسہری پر اس ترتیب سے لگائیں۔
۱-سب سے پہلے وہ بڑی چادر مسہری پر لمبائی میں بچھا دیں جو میت کو اخیر میں باندھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
۲- کرتا جس میں بیچ میں سوراخ ہو گردن ڈالنے کے لیے اس کا ایک حصہ مسہری پر پھیلا دیں اور دوسرا اور اوپری مسہری کے سرہانے کی جانب لگائیں اور اس کا حصہ لپیٹ کر سرہانے رکھ دیں۔
اگر جنازہ عورت کا ہے تو کرتے کے اوپر سینہ بند چوڑائی میں پھیلا دیں۔
۳- اب مسہری میں میت کو لٹا دیں۔ سینہ بند کو دائیں سے بائیں لپیٹیں اور بائیں سے دائیں۔
۴- ازار یا تہ بند کو دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کی طرف لپیٹ دیں۔
۵- ازار لپیٹ دینے کے بعد کرتے کا ایک پردہ جو میت کے کے سرہانے کی جانب رکھا ہوا تھا اسے نیچے کی جانب لاتے ہوئے میت کا سر اس میں ڈال کر اوپری حصہ کو جہاں تک لمبائی ہو میت کے جسم پر پھیلادیں۔
۶- اگر میت خاتون ہے تو سر سے اسکارف لپیٹ دیں۔
۷- اب پوری میت کو اس بڑی چادر میں لپیٹ دیں جو سب سے پہلے بچھائی تھی۔ پیروں کی طرح لپیٹ کر گرہ لگا دیں اور سر کا حصہ کھلا رکھیں تاکہ چہرہ دیکھنے کے خواہش مند لوگ چہرہ دیکھ سکیں۔
اب جنازہ تیار ہے۔