امر بالمعروف سے مراد نیکی اور نیک کاموں کا حکم دینا اور نہی عن المنکر سے مراد برائی سے روکنا ہے۔ یہ اہم فریضہ امت مسلمہ پر فرض قرار دیا گیا ہے کیوں کہ اب دنیا میں قیامت تک کوئی رسول اور نبی نہیں آئے گا۔ حضرت محمدؐ خاتم النّبیین اور ہم آخری امت ہیں۔ اب لوگوں تک ہدایت و راہ نمائی اور اسلام کی تعلیمات پہنچانے کی ذمے داری امت محمدیہ پر عاید ہے۔ ہماری امت کی فضیلت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ساتھ مشروط ہے۔ اب اگر ہم امت محمدیہ کی حیثیت میں یہ اہم فریضہ انجام دینے میں کوتاہی یا غفلت برتیں گے تو نہ صرف ہماری فضیلت ختم ہو جائے گی، بلکہ روز قیامت اللہ کے ہاں جواب دہ بھی ہونا پڑے گا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء کرام کی امتوں کے قصوں کا تزکرہ اس لیے کیا ہے تاکہ ہم عبرت حاصل کریں۔ سورہ اعراف کے بیسویں رکوع میں واقعہ سبت کے تین گروہوں کا ذکر ہے جس میں نہ صرف اس گروہ کو عذابِ الٰہی کا سامنا کرنا پڑا جو خود اللہ کے حکم کو پامال کرتا تھا بلکہ وہ گروہ بھی عذاب الٰہی کا شکار ہوا جو خود تو حکم کی نافرمانی نہیں کرتا لیکن دوسروں کو منع نہیں کرتا تھا۔ یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام نہیں دے رہا تھا۔
اسلام کی نظر میں دوسروں کو برائی سے روکنا اخلاقی فریضہ اور اہم ذمے داری ہے۔ اگر اس فریضے کو احسن طریقے سے ادا نہ کرنے والا بھی ایسا ہی گناہ گار ہے جیسے کہ خود گناہ کا مرتکب ہوا۔
آج ہم سب نے امت مسلمہ کی یہ اہم ذمے داری بالائے طاق رکھ دی ہے۔ ہمارے سامنے خود مسلمانوں کے درمیان انہی کے ذریعے اسلامی اقدار کے منافی رسومات و افعال انجام پاتے ہیں اور ہم اسے یکسر نظر انداز کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے اندر بے حیائی، بے ایمانی، وعدہ خلافی، دھوکا دہی، کرپشن، بہتان، غیبت، رشوت، جھوٹ، بداخلاقی، بے انصافی قانون شکنی معاشی عدم مساوات اور عدم برداشت غرضے کہ تمام برائیاں اپنے عروج پر ہیں۔
ایک بات اہم ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اہم فریضہ انجام دینے کے ساتھ ہی اپنا بھی محاسبہ بھی کرلیں۔ جیسیا کہ سورہ بقرہ میں اللہ رب العزب فرماتا ہے: ’’کیا تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے کو بھول جاتے ہو۔‘‘
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی شخص اسی وقت اس فریضہ کی ادائیگی کرے گا جب وہ خود دودھ کی طرح سفید اور ستھرا ہو جائے کیوں کہ آج بہت سے لوگ اسی کو بہانہ بنائے ہوئے ہیں۔ بلکہ اس کا مقصد اور مطلب یہ ہے کہ ایک مومن کی زندگی میں قول و عمل کا تضاد نہیں ہونا چاہیے اور یہ اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ اس تضاد و قول و عمل کی برائی کو اگر کوئی شخص سامنے رکھ کر دعوت و اصلاح کا کام انجام دے گا تو خود اس کی زندگی بھی تزکیہ اور تطھیر ہوگی اور وہ اسی دعوت و اصلاح کے ذریعے اپنی زندگی کو اسی طرح حسین بنائے گا جس طرح صحابہ کرام نے بنایا۔
ضروری ہے کہ نصیحت خوش اسلوبی، نرمی اور حکمت و دانائی کے ساتھ کی جائے۔
ارشادِ ربانی ہے: ’’تم اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی سے اور اچھی نصیحت سے بلاؤ۔‘‘ (سورہ نحل)تاکہ لوگوں میں ضد اور غصے کے جذبات نہ پیدا ہوں ورنہ نیکی پھیلانے کے بہ جائے برائی اور فتنہ و فساد کا اندیشہ پیدا ہوجائے گا اور اصل مقصد جو معاشرے کی اصلاح اور اخلاقی حفاظت ہے وہ فوت ہوجائے گی۔
خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضورؐ نے فرمایا: ’’جو اس اجتماع میں حاضر نہیں ان تک میرا پیغام پہنچادو۔‘‘ اسلامی معاشرے کا ہر فرد اسلامی تعلیمات کو دوسروں تک خوش اسلوبی سے پہنچانے اور اپنے مسلمان بھائی کو گمراہی کی تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانے کا ذمے دار ہے۔
جیسا کہ سرور کائنات احمد مجتبیٰ ﷺ کا ارشاد پاک ہے: ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘
یعنی جو جتنا اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگا، اس پر اتنی ہی ذمے داری بھی زیادہ ہوگی اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس ذمے داری کے بارے میں باز پرس کرے گا۔ گھر کا سربراہ اپنے اہل خانہ کو راہ راست پر لانے اور فلاح و کام رانی کا ذمے دار ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں کئی مقامات پر اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’اے اہل ایمان! اپنے آپ کو اور اہل خانہ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ حکم ران اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کا ذمے دار ہے۔ اسلامی حکومت کے فرائض میں اہم فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے جیسا کہ سورہ حج میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدا رعطا کریں تو وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ کی ادائی کا اہتمام کریں اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔‘‘
مندرجہ بالا آیت کی رو سے ایک اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ جب تک وہ برسر اقتدار رہے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے نیکی کو پھیلائے اور برائی و بے حیائی کو ختم کرے۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کی ذمے داری اور اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ حکومت ذرائع ابلاغ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ایسے پروگرام پیش کرے جو نہ صرف بلند انسانی اقدار پر مبنی ہوں بلکہ ہمارے معاشرے کی اخلاقیات کو اعلیٰ معیار پر لے جائیں۔
ارشادِ ربانی ہے: ’’تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے ہی چاہیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہی کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔ پس تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی اور واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوگئے۔‘‘
سرور دو عالمؐ نے بھی مسلمانوں کے لیے ہدایت فرمائی: تم میں سے کوئی شخص اگر ظلم و زیادتی اور برائی کو طاقت کے ساتھ روک سکتا ہو تو زور بازو سے روک دے۔ اس کی ہمت نہ ہو تو زبان سے روک دے، لیکن اگر اس کا ایمان بے حد کم زور ہے تو وہ اسے دل سے برا سمجھے۔ اگر اتنا بھی نہ ہو تو پھر ایمان کا کون سا درجہ باقی رہ جاتا ہے۔
ان تمام برائیوں کا سد باب یہی ہے کہ انفرادی و اجتماعی سطح پر ہم اس اہم فریضے کو انجام دیں جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو فضیلت بخشی ہے۔ یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ بہتر معاشرے کے قیام کے لیے ہم سب کو مل کر اپنے حصے کی ذمے داری احسن طریقے سے ادا کرنی ہے، کیوں کہ نیکی پھیلانے اور برائی مٹانے کا فرض ادا کرنا ہی اس امت کے وجود کا مقصد اور جواز ہے۔ اگر امت اسی بنیادی فریضے سے غافل ہوجائے گی تو دنیا میں نفرت اور بغض کا عفریت طاقت ور ہوتا جائے گا اور سب سے پہلے اسی امت کو نگلنے کی فکر کرے گا جیسا کہ آج ہو رہا ہے۔
غور کیجیے اگر ہندوستان کے مسلمانوں نے گزشتہ صدیوں میں یہاں بسنے والے انسانوں کے درمیان اس فریضہ کی ادائگی کی ہوتی تو کیا آج اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت اور دشمنی فروغ پاسکتی تھی۔ نہیں ہرگز نہیں۔
خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: برائی اور بھلائی یکساں نہیں ہوسکتے، برائی کو اس چیز سے ہٹاؤ جو اچھی (یعنی بھلائی) ہو۔ پس(اگر ایسا ہو) تمہارے اور تمہارے دشمن کے درمیان جو دشمنی ہے وہ ختم ہوجائے گی اور وہ تمہارا پکا دوست بن جائے گا۔ (فصلت:۳۷)۔lll