آج جیسے ہی محمودہ کو اپنی بچی کے بارے میں علم ہوا تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہ دل ہی دل میں دنوں اور گھڑیوں کا حساب لگانے لگی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ مجھے اپنی بیٹی کے لیے کیا کیا انتظام کرنا ہے۔ ایک چھوٹی سی ضرورت سے لے کر بڑی سے بڑی ضرورت کی تکمیل اس کے ذہن و ادراک میںگھومنے لگی۔ وہ بار بار سامنے ٹنگی شوہر کی تصویر دیکھتی ’’آج تم ہوتے تو کتنے خوش ہوتے‘‘ اور کبھی اپنے ہی سے باتیں کرنے لگتی۔ ’’محمودہ تجھے بچی کے سارے ہی تو ارمان پورے کرنے ہیں۔‘‘ کبھی جاکر صندوق کا جائزہ لینے لگتی کہ مجھے کیا کیا سامان اور کرنا ہے۔
ایک کے بعد ایک دن گزرنے لگے اور پھر ایک دن بڑے زور سے موبائل کی گھنٹی بجی اور بار بار بجتی رہی۔ محمودہ نے سلام پھیر کر جلدی سے موبائل اٹھایا ’’ہلو‘‘ مبارک ہو آپ کی بیٹی کو اللہ نے چاند سی بچی دی ہے۔ اللہ کا شکر ہے زچہ بچہ دونوں خیریت سے ہیں ٹھیک ٹھاک ہیں۔ محمودہ نے پلٹ کر بس اتنا کہا آپ کو بھی مبارک ہو اور فورا سجدے میں گر گئی اور دیر تک اپنے رب سے مناجات کرتی رہی۔ نیچے جاکر بڑی اماں کو یہ خوش خبری دی تو بڑی اماں نے ایک دم سے محمودہ کو کلیجے سے لگا لیا اور دیر تک بلائیں لیتی رہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر چاروں طرف خوشبو کی طرح پھیل گئی پھر کیا تھا مبارک باد کا تانتا بندھ گیا۔ بہرحال اسی ہمہ ہمی میں پورا دن گزر گیا۔
محمودہ کا دل چاہتا تھا کہ اڑ کر اپنی بیٹی کے پاس پہنچ جاؤں۔ بڑی اماں سے بار بار معلوم کرتی کہ ہمیں کب جانا چاہیے کیا کیالے کر جانا چاہیے۔ بڑی اماں نے بڑے تحکمانہ انداز میں کہا۔ ابھی جلدی مت کرو، کیا معلوم وہاں کوئی عقیقہ وغیرہ کی تقریب ہونے لگے اور تمہیں بلایا جانے لگے۔ اس وقت جاتی ہوئی اچھی بھی لگوگی۔ میرا تو خیال ہے وہ اتنے بڑے آدمی ہیں کوئی خوشی ضرور کریں گے۔
دو تین دن بعد آخر کار یہ اطلاع آہی گئی بچی کا ساتویں دن عقیقہ ہے اور آپ سب کو آنا ہے۔ انتظام تو ہو ہی رہا تھا، اطلاع سے اس میں اور شدت آگئی اور اچھا خاصہ سامان ہوگیا۔ چھوٹے بڑے سب کے لیے کچھ نہ کچھ سوغات اور نو واردہ کے لیے تو اتنا اہتمام گویا وہ دو تین سال کی بچی ہو پڑھنے لکھنے کی چھوٹی سی میز کرسی تک بھی چھوٹے بڑے کھیل کھلونوں کے ساتھ شامل تھی اور پھر مقررہ تاریخ پر اپنے تینوں چاروں دیوروں کے ساتھ نہ چلنے کے باوجود اپنی دونوں چھوٹی بچیوں کو لے کر ہوشیار پور کے لیے نکل پڑی۔ ہوشیار پور زیادہ دور تو تھا نہیں چند گھنٹوں میں وہاں پہنچ گئیں۔ ادھر سے بھی ایک دو افراد لینے آگئے۔ گھر پہنچ کر بچی کو سینے سے لگایا بہت دیر تک پیار کرتی رہیں پھر سب سامان داماد اور گھر کے لوگوں کے سامنے رکھ دیا جو یقینا حیثیت سے بہت زیادہ تھا جس کا محمودہ کے سب ہی قریبی عزیز و اقارب نے مل کر اہتمام کیا تھا۔ بہرحال سامان بڑے قرینے سے لگا دیا گیا اور سب عقیقہ کی تیاری میں لگ گئے۔
شب میں دعوت عقیقہ دیر تک چلتی رہی۔ تمام نظم بہت معقول تھا۔ البتہ کچھ تو دوری اور پھر رات کا وقت اور کچھ موسم کی خرابی کے باعث توقع سے کہیں کم افراد آئے اور اچھا خاصہ کھانا بچ گیا۔ محمودہ نے محسوس کیا کہ مہمان داری زیادہ ہے اس لیے ہمیں جلدی چل دینا چاہیے اور پھر اگلے دن شام کی بس سے بیٹھ کر اپنے مقام گنیا پور آگئیں۔ آٹھ نو بجے کا وقت تھا کھانے کا بھی وقت تھا۔ بھوک بھی خوب لگی تھی راستے میں پانی پر ہی گزارہ کرتی رہیں۔ آتے ہی مہک سے کہا بیٹی لاؤ کھانا لے آؤ۔ مہک نے کہا آدمی آپ تو اپنے پروگرام سے ایک دن پہلے ہی آگئیں ہم نے جو بنایا تھا کھالیا اور پھر یہ بھی خیال تھا کہ آپ تو خود باجی کے یہاں سے ہمارے لیے کچھ نہ کچھ کھانا لائیں گی۔ آخر ہم بھی تو کچھ عقیقہ کا نمک چکھیں گے۔ محمودہ نے ذرا جھڑک کر کہا باتیں مت بنا جو ہے لے آیا۔ مہک جو کچھ تھالے آئی اتنے میں بڑی جٹھانی بھی آگئی۔ کیسی رہی تمہاری تقریب۔‘‘ بہت اچھی، بڑا معقول انتظام، روشنی کا بڑا ہی خوب بندوبست، میز کرسی کا بڑا ہی اچھوتا اہتمام۔ البتہ کچھ دوری اور پھر رات کا وقت زیادہ لوگ نہیں آپائے کھانا بہت بچ گیا۔ مگر آپ تو یہیں کا کھانا کھا رہی ہیں کیا انھوں نے کچھ کھانا ساتھ نہیں دیا۔ ’’بہن کھانا تو بہت تھا، انھوں نے خود سے دیا نہیں اور ہم نے کہا نہیں۔ وہ بڑے آدمی ٹھہرے ہم کیا چھوٹی سی بات کے لیے کہتے بس میں تو اللہ سے یہی دعا کرتی ہوں اللہ میری بچی کو خوش و خرم رکھے۔lll