امام محمد بن ابو بکر بن عبد القادر الرازی ’’مختار الصباح‘‘ میں لکھتے ہیں ’’بصر‘‘ رؤیت کا حاسہ ہے۔ البصرۃ کا مطلب ہے، اس نے اسے دیکھا۔البصیر نابینانی کی ضد ہے اور بصر بہ کا معنی ہے جاننا، اسی سے ارشادِ الٰہی ہے:
قال بصرت بما لم یبصروا (طہٰ:۰۲) ’’اس نے جواب دیا: میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں کو نظر نہ آئی۔‘‘ التبصر کا مطلب ہے: تامل و تصرف، تبصیر: تعریف اور ایضاح، المبصرۃ: روشن۔
ارشادِ الٰہی ہے:
فلماجاء تھم اٰیتنا مبصرۃ (النمل:۷۲) ’’مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں ان لوگوں کے سامنے آئیں۔ الاخفش نے کہا: اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات انہیں بصراء (دیکھنے والے) بناتی تھیں۔ معلوم ہوا کہ تبصیر کا معنی ہے: تعلیم، تعریف، ایضاح اور تنویر۔ والدین اور تربیت کرنے والوں کے اہم ترین فرائض میں سے ایک بچوں اور بچیوں کو علم حاصل کرنے کے آداب اور تحصیل علم کی مہارتوں کی بصیرت بخشنا ہے۔ اس مضمون کا تعلق اسی سے ہے:
۱- اپنے بچے کو پاکیزگی قلب کی بصیرت دیجیے:
علم حاصل کرنے والا اپنے دل کو ملاوٹ اور میل کچیل، کھوٹ اور حسد، بدعقیدگی اور بداخلاقی سے پاک صاف کرے تاکہ اس کا دل علم کو قبول کرنے اور اسے یاد رکھنے کے قابل ہوسکے۔
۲- بچے کو خلوص نیت کی بصیرت دیجیے: ہر تعلیمی سال کے آغاز میں، میں اپنے طلبہ و طالبات کو جب سب سے پہلا لیکچر دیتا ہوں تو میں ان سے پوچھتا ہوں: آپ لوگ کالج کیوں آئے ہو؟‘‘ تو وہ مختلف جوابات دیتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ان میں سے کسی نے یہ جواب دیا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر حصولِ علم کے لیے آیا ہے۔ یہ فکر و نظر کے بحران کا غماز ہے، نیز اس بات کا ثبوت ہے کہ والدین اور تربیت دینے والے اس میدان میں کوتاہ بین واقع ہوئے ہیں۔ لہٰذا تربیت کنندگان اور والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں اور شاگردوں کے دل و دماغ میں یہ حقیقت راسخ کریں کہ طلب علم میں نیت کا اچھا ہونا لازمی ہے۔بچوں کو اس بات کی بصیرت بخشیں کہ علم حاصل کرنے کا مقصد ہے: اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا، اس کی شریعت کو زندہ کرنا، قیامت کے دن اللہ کا قرب پانا اور اللہ نے اہل علم کے لیے جس اجر و ثواب اور جن نعمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، انہیں حاصل کرنے میں کامیاب ہونا۔
ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام والدین اور مربی حضرات کے لیے لازم ہے کہ وہ ابتداء ہی سے بچوں کے اندر علم کا شوق اور لگن پیدا کریں اور اس لیے پیدا کریں کہ یہ بھی عبادت اور اللہ کے قرب کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔
خاندانی تربیتی طرزِ عمل
ایک دن صبح شوہر کی آنکھ بیوی کی آواز سن کر کھلی، وہ اپنے بیٹی کو جگا رہی تھی۔ وہ اس وقت گیارہویں کلاس کا طالب علم تھا۔ ماں بچے کو کالج جانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ چناں چہ ماں بیٹے کے مابین یہ مکاملہ ہوا:
ماں: اٹھو، کالج جاؤ۔
بیٹا: ہر روز کالج، ہر روز کالج؟ آپ لوگ کالج بھیجنے پر اصرار کیوں کرتے ہو؟ اس کا فائدہ کیا ہے؟
ماں: یہ تم کیسی فضول باتیں کر رہے ہو؟
بیٹا: میں آپ سے پوچھ رہا ہوں، آپ مجھے جواب دیجیے اور میرے ساتھ بات چیت کیجیے؟
ماں: ہم چاہتے ہیں کہ تم کالج جاؤ تاکہ تم علمی ڈگری حاصل کر سکو۔
بیٹا: آخرعلمی ڈگری ہی کیوں؟
ماں: (غصے سے) تم اسی طرح کے سوالات کیوں کرتے ہو؟
بیٹا: میں آپ سے بات کر رہا ہوں، آپ بھی مجھ سے مکالمہ کریں، مگر سکون کے ساتھ، غصے میں نہ آئیں اور مہربانی کر کے چلائیں نہیں، صرف میرے ساتھ بات چیت کریں۔
ماں: جب تمہیں ڈگری مل جائے گی تو پھر تمہیں ملازمت ملے گی۔
بیٹا: جو کچھ آپ کہہ رہی ہیں، میں اس کا قائل نہیں ہوں، مجھے اس پر اطمینان نہیں، مگر پھر بھی ہمیں گفتگو کو انجام تک پہنچانا چاہیے… اچھا، مجھے جاب کی کیوں ضرورت ہے؟
ماں:تاکہ تم شادی کرو اور اپنے گھر میں اپنے خاندان کی تشکیل کرو۔
بیٹا: میری امی جان، آپ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں، میں آپ کی رائے کا قائل نہیں، اس لیے میں اب اعداد و شمار اور واضح دلائل کے ساتھ آپ سے مکالمہ کرتا ہوں، لہٰذا آپ میری بات کا جواب دیجیے۔ آپ کے اور میرے ابو کے قریبی رشتہ داروں میں سے کتنے فی صد ہیں، جنہوں نے اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کیں اور پھر انہیں ملازمتیں ملیں؟ اور جن کو ملازمتیں ملیں ان میں سے کتنے فی صد اس لائق ہوئے کہ وہ شادی کرسکیں اور اپنی تنخواہوں سے اپنے خاندانوں کی تشکیل کرسکیں؟ میرے خیال میں نہ تو اسکول کالج جانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی تعلیمی ڈگری کی!!
یہ سن کر ماں زور سے چیخی اور اس نے اپنے شوہر کو آواز دی: جلدی کرو، اپنے بیٹے کے ساتھ مکالمہ کرو، میں تو اس کی باتوں سے جھلا کر پھٹا چاہتی ہوں۔
باپ: میرے پیارے بیٹے! کیا تم مسلمان ہو یا غیر مسلم؟
بیٹا: یہ کیا سوال ہے؟
باپ:ہم مکالمہ کر رہے ہیں، لہٰذا انکار نہ کرو، ناراض نہ ہو، مشکل نہ ہو، مجھے سکون سے جواب دو۔
بیٹا: (مسکراتے ہوئے) میں یقینا مسلمان ہوں۔
باپ:کیا تم صرف قول کے مسلمان ہو یا قول و عمل دونوںسے مسلمان ہو؟
بیٹا: میں قولاً و عملاً مسلمان ہوں۔
باپ: اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ قرآن و سنت میں آیا ہے تم اس پر عمل کروگے؟
بیٹا: بغیر کسی شک کے۔
باپ: پھر اللہ بزرگ و برتر کا ارشاد سنو: ’’اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘ (المجادلہ:۸۵)۔ پھر اس ارشادِ الٰہی پر تدبر کرو:
’’ان سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ (الزمر:۹۳)
بہت سی آیات ہیں جن سے علم کی عظمت اور تحصیل علم کے اجر کی وضاحت ہوتی ہے۔ جہاں تک تحصیل علم میں ہمارے رسول کریم کی کی آیات کا تعلق ہے تو بہت سی احادیث میں تحصیل علم پر آمادہ کیا گیا ہے اور علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گی ہے بلکہ ان احادیث نے تو حصولِ علم کو جہاد کے مرتبہ کی رفعت بخشی ہے۔ میرے بیٹے، میں اس سلسلے میں صرف ارشادِ نبویﷺ کو بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:
’’جو طلب علم میں نکلا تو وہ اللہ کے راستے میں ہے، حتی کہ واپس آجائے۔‘‘ (ترمذی)
میرے بیٹے! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم گلاس کے خالی آدھے حصے کو تو دیکھتے ہو جو آدھا گلاس بھرا ہے، اسے نہیں دیکھتے؟ تم نے ان لوگوں کی طرف کیوں دیکھا جنھوں نے ڈگریاں لیں مگر انہیں ملازمتیں نہیں مل سکیں؟ تم نے ان لوگوں کی طرف کیوں دیکھا جنہیں ملازمتیں ملیں مگر وہ اپنی تنخواہوں سے شادیاں نہیں کرسکے؟ تم نے ان لوگوں کو کیوں نہیں دیکھا جنہیں ملازمتیں ملیں اور ان کی ملازمتیں ان کے سماجی و اقتصادی مرتبہ کی بلندی کا باعث بنیں؟ تم اپنے باپ کی طرف کیوں نہیں دیکھتے؟ اور اپنے آپ سے یہ کیوں نہیں پوچھتے: میرے اور میرے چچا زادوں کے درمیان کیا فرق ہے، جنھوں نے اعلیٰ ڈگریاں حاصل نہیں کیں؟ اب ذرا اس کا سبب بتاؤ کہ تم معیشت اور زندگی کے باوقار معیار سے لطف اندوز ہو رہے ہو، مگر جن لوگوں نے اعلیٰ ڈگریاں حاصل نہیں کیں ان کے بیٹوں اور اولاد کا معیار زندگی کیا ہے؟ کیا ان کا معیار زندگی کم تر نہیں ہے؟
یہ تربیتی خاندانی طرزِ عمل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہمارے بچوں کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم انہیں حصولِ علم میں خلوصِ نیت کی بصیرت دیں۔ ہم انہیں بتائیں کہ تحصیل علم سے مقصود اللہ کی رضا ہے اور حصولِ علم کا مقصد اللہ کی بندگی کرنا ہے۔ محض ڈگری حاصل کرنے کی ترغیب دینے سے یہ زیادہ موثر ہے۔ تنخواہ ملنے یا گھر مل جانے، یا شادی کرلینے اور گھر بار وجود میں لانے سے کہیں زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز خلوصِ نیت ہے کہ تحصیل علم کا مقصد اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا حاصل کرنا ہے۔یہ ہے دونوں اندازِ فکر میں فرق۔
علم حاصل کرنے کے آداب کی بصیرت دیجیے!
طالب علم کے لیے خلوصِ نیت کے سلسلے میں امام غزالیؒ فرماتے ہیں: متعلم کا فی الحال مقصد اپنے باطن کو آراستہ کرنا اور اسے فضیلت سے سنوارنا ہے اور انجام کار اس کا مقصد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قرب پانا اور ملائکہ مقربین کے ملاء اعلیٰ کے جوار میں ترقی پانا ہے۔ طالب علم حصولِ علم کے لیے ہرگز یہ نیت نہ کرے کہ اس کا مقصد ریاست، مال و جاہ، احمقوں کی برابری کرنا اور ہم عصروں سے مقابلہ کرنا ہے…‘‘ الشیخ الزرنوجی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: پھر علم حاصل کرنے کے زمانے میں نیت کرنا ضروری ہے کیوں کہ تمام احوال میں نیت ہی اصل ہے، کیوں کہ آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ (بخاری) ابن الحسن الشیبانیؒ فرماتے ہیں جس نے علم و عمل کی لذت پالی، وہ بہت کم ہی اس چیز کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو لوگوں کے پاس ہے۔‘‘
نو عمری کو غنیمت سمجھنے کا احساس کرائیے:
والدین اور تربیت کرنے والوں کا فرض ہے کہ وہ بچوں، بچیوں اور شاگردوں میں یہ بصیرت پیدا کریں کہ وہ نوجوانی کے زمانے میں علم حاصل کرنے کے لیے لپکیں۔ چناں چہ ایک مسلم ماہر تربیت بدر الدین بن جماعۃ، نوجوانی کے زمانے میں طالب علم کے فریضے کے بارے میں کہتا ہے: اسے چاہیے کہ وہ نوخیزی اور نوجوانی کی طاقت کو خوب استعمال کرے۔ یعنی اس مدت کو اپنے لیے غنیمت سمجھے اور اسے حصولِ علم میں صرف کرے۔ وہ ’’میں جلد ہی کرلوں گا۔‘‘، ’’مجھے امید ہے کہ میں کرلوں گا‘‘ کے دھوکے کا شکار نہ ہو۔
اس کی زندگی کی جو گھڑی گزر رہی ہے، اس گھڑی کا نہ کوئی بدل ہے نہ کوئی عوض۔ طالب علم کو چاہیے کہ وہ حصولِ علم میں رکاوٹ بننے والے تمام مشغلوں کو جہاں تک اس کا بس چلے، ترک کر دے۔ وہ تحصیل علم میں اپنی پوری توانائی صرف کر ڈالے، وہ خوب محنت اور جدوجہد کر کے علم حاصل کرے۔ عزیزوں اور علاقے سے رابطے اور تعلقات راہ زنوں کی مانند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین گھر والوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے ترک وطن کرتے تھے۔ اسی لیے کہ سوچ جب منقسم ہوتی ہے تو پھر وہ حقائق کے ادراک اور حکمت کے پانے سے قاصر رہتی ہے۔‘‘
اس طرح کہا جاتا ہے: العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک (علم اپنا بعض تجھے نہیں دے گا، جب تک کہ تم اپنا کل اسے نہیں دے دیتے۔‘‘
’’وفیات الاعیان‘‘ میں الحمیدی سے مروی ایک روایت ہے، کہا: میں نے الزنجی بن خالد یعنی مسلم کو امام شافعی ؒ سے مخاطب ہوکر یہ کہتے سنا: ’’اے ابو عبد اللہ، فتویٰ دو، اللہ کی قسم، اب تمہارے لیے فتوے دینے کا وقت آگیا ہے۔‘‘ اس وقت امام شافعی پندرہ برس کے نوجوان تھے۔
امام شافعیؒ خود بیان کرتے ہیں: میں مالک بن انسؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے ’’الموطا‘‘ حفظ کی ہوئی تھی، آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’اپنے لیے کوئی پڑھنے والا لے کر آؤ۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’میں پڑھ سکتا ہوں۔‘‘ چناں چہ میں نے امام مالکؒ کے الموطا کتاب زبانی پڑھی۔ امام شافعیؒ ہی کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے کہا: اگر مجھے ایک پیاز کے خریدنے کی ذمہ داری سونپی جائے تو میں مسئلہ نہ سمجھ سکوں۔ اس قول سے واضح ہے کہ امام شافعی نے ان تمام مشاغل و تعلقات کو یکسر دور پھینک دیا تھا جو آپ کو علم سے ہٹا سکتے تھے۔
امام شافعیؒ کے شعروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حصولِ علم میں سب سے بڑی رکاوٹ گناہ ہیں، آپ کے شعر کا ترجمہ ہے:
’’میں نے اپنے استاد جناب وکیع کے حضور اپنے خراب حافظے کی شکایت کی تو آپ نے میری راہ نمائی فرمائی کہ گناہ کو چھوڑ دوں اور مجھے مطلع کیا کہ علم نور ہے اور اللہ کا نور گناہ گار کو نہیں عطا کیا جاتا۔‘‘
اچھی صحبت کی تلقین کیجیے
حصولِ علم کے قوی اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ متعلّم ان لوگوں کی صحبت اختیار کرے جو طلب علم میں سنجیدہ اور محنت کش ہیں۔ اسے اہل ایمان کی ہم نشینی اختیار کرنا چاہیے۔ اس مجلس کا اثر اسے تحصیل علم پر آمادہ کرے گا، اس کے عزم کو تیز تر کردے گا اور اس کی ہمت کو بلند تر کردے گا۔
امام زرتوجیؒ فرماتے ہیں: ’’جہاں تک دوست اور ساتھی کے انتخاب کا تعلق ہے تو چاہیے کہ طالب علم ایسا ساتھی اختیار کرے جس کی طبیعت میں استقامت ہو اور وہ درست مزاج اور سمجھ دار ہو۔ طالب علم کو چاہیے کہ وہ سست، کاہل، بے کار، مفسد اور کند ذہن سے دور رہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
’’خبردار جاہل شخص کی ہم نشینی نہ کرنا، اس سے بچ کے رہنا، کتنے جاہل جذباتی ہوتے ہیں کہ جب وہ کسی برد بار سے ملتے ہیں تو اسے تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ آدمی کا اندازہ آدمی سے لگایا جاتا ہے جس کے ساتھ وہ اٹھتا بیٹھتا اور چلتا پھرتا ہے۔‘‘
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو دوست اور ساتھی اختیار کرنے کے معیاروں سے آگاہ کریں اور اچھے دوست چننے میں ان کی مدد کریں۔ برے دوستوں سے بچنے میں اولاد کے ساتھ تعاون کریں۔ خاص طور پر بچوں کو ایسے دوستوں سے بچائیں جو انحراف، بگاڑ اور کثرتِ لہو و لعب میں بدنام ہوں۔
یاد رہے کہ طبیعتیں ایک دوسرے کو چراتی ہیں اور بری صحبت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ زندگی بے فائدہ ضائع ہو جاتی ہے، نیز مال و دولت اور عزت و آبرو بھی جاتی رہتی ہے۔
اگر بچوں میں سے کسی نے غلط اور برا ساتھی بنا لیا ہے تو باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹے کی مدد کرے تاکہ وہ اس برے دوست سے خلاصی پاسکے۔ اسی طرح بیٹی نے غلط سہیلی بنالی ہے تو ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کو اس بری سہیلی سے بچانے کے لیے جتن کرے، تاکہ دوستی کی جڑیں گہری ہونے سے پہلے ہی ان دوستانہ روابط کو پہلے ہی مرحلے میں منقطع کر دیا جائے۔ اس لیے کہ معاملات جب پختہ ہو جاتے ہیں تو ان کا ازالہ دشوار ہو جاتا ہے۔ ابن جماعۃ فرماتے ہیں: فقہا کی زبانوں پر یہ قول جاری ہے کہ ’’دھکیلنا اٹھانے سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔‘‘
ابو حاتم الرازی کہتے ہیں: ’’میں نے بصرہ میں چودہ برس تک قیام کیا۔ میں نے اپنے کپڑے فروخت کر دیے اور یوں جو رقم ملی وہ بھی ختم ہوگئی، حتی کہ میں نے دو دن فاقہ کیا۔ میں نے اپنے ایک ساتھی کو یہ حالت بتائی تو وہ بولا: میرے پاس ایک دینار ہے، چناں چہ اس نے مجھے آدھا دینار دے دیا۔ یہ تھی سچی دوستی!
ہمارے بچوں کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے تاکہ ان کے صبر و برداشت اور ثابت قدمی میں اضافہ ہوا اور ان کے مابین صداقت و اخوت کے تعلقات مضبوط ہوں۔ تاکہ وہ دنیا کی حرص و طمع سے پاک رہیں۔ وہ ایسے زمانے میں قناعت کرنے والے ہوں، جس میں مادیت اور اس کی زیب و زینت نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حتی کہ انسانوں کو عیش و عشرت اور شہوات کی محبت میں غرق کر دیا ہے۔ تاکہ ہمارے بچے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کا درست انتخاب کرسکیں۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ترجمہ:’’تیرا مخلص دوست وہ ہے جو تمہارے ساتھ ہو اور جو تمہیں فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے آپ کو نقصان پہنچائے اور جب گردشِ زماں تمہیں شکستہ و پراگندہ کردے تو وہ تمہاری شیرازہ بندی کے لیے پراگندہ ہو جائے۔‘‘lll