جرم ضعیفی کی سزا

اقبال مسعود

اے فانی دنیا کے رہنے والو! تمہیں زندہ آدمی کی بات سننے کی عادت نہیں ہے۔ اس لیے میں مرکر بول رہا ہوں۔ زندگی میں تم جس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے، اس کی سڑی لاش کے پیچھے جلوس بنا کر چلتے ہو۔ زندگی بھر جس سے تم نفرت کرتے رہے اس کی قبر پر چراغ جلانے جاتے ہو۔ مرتے وقت جسے تم نے دو گھونٹ پانی بھی نہ دیا اس کی لاش کو سیروں پانی سے نہلاتے ہو۔

مگر مجھے کیا پڑی تھی کہ زندگی بھر بے زبان رہ کر اب جہنم کے ایک گوشے سے بولتا۔ میںنے سنا ہے کہ تمہارے یہاں کے وزیر خوراک نے اسمبلی میں کہا ہے کہ میری موت بھوک سے نہیں ہوئی، میںنے خود کشی کرلی تھی … مارا جاؤں… اور خود ہی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا جاؤں؟ بھوک سے مروں مگر لوگ میری موت کا بھوک کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ روٹی … روٹی… پکارتا مر جاؤں اور میرے مرنے کے وجوہ میں روٹی کا ذکر تک نہ ہو؟ لیکن میں سب برداشت کرلیتا، زندگی بھر بے انصافیوں کو برداشت کرتے کرتے اب انصاف میرے لیے اصلی گھی کی طرح ہوکر رہ گیا ہے، مگر آج ہی ایک واقعہ یہاں جہنم میں بھی ہوگیا۔

ہوا یوں کہ جنت اور جہنم کو جو دیوار الگ کرتی ہے اس کے ایک سوراخ میں سے میرے کتے نے مجھے دیکھا اور بھوں بھوں کر کے پیار جتانے لگا۔ میری حیرت کی کوئی حد و انتہا ہی نہ رہی… میں یہاں جہنم میں اور میرا کتا دوسری طرف جنت میں۔ یہ کتا… میرا پیارا کتا؟ اصحابِ کہف کے کتے سے بھی زیادہ اہم نکلاوہ۔ میری زندگی میں ایک حادثہ ہوا اور تب ہی سے یہ کتا میرا دوست اور غم خوار بن گیا۔ ایسا کہ کبھی اس نے مجھے نہ چھوڑا۔ پڑوس کے سیٹھ بھی اسے پالنا چاہتے تھے۔ سیٹھانی تو اس پر ریجھ سی گئی تھی مگر یہ مجھ کو چھوڑ کر نہیں گیا۔ کسی لالچ میں نہیں آیا، اس لیے مجھے خوشی ہوئی کہ وہ جنت میں ہے مگر میرے ساتھ جو بے انصافی کی گئی تھی اسے بھی میں آسانی سے فراموش نہیں کرسکا۔ پھر یہ جگہ دنیا بھی نہ تھی، جہاں فریاد بھی بغیر رشوت کے نہیں سنی جاتی۔ جہاں کبھی کبھی فریادی کو ہی سزا دے دی جاتی ہے۔ جہاں برسوں بعد فیصلے ہوتے ہیں …یہاں تو فریاد فوراً سنی جاتی ہے۔ اس لیے میں داروغہ جہنم کے پاس پہنچا او رکہا: ’’زمین پر بے انصافیاں برداشت کر کے اس تمنا میں یہاں آیا کہ انصاف ملے گا… مگر یہ کیا کہ میرا کتا تو جنت میں ہے اور میں جہنم میں۔ زندگی بھر کوئی برا کام نہیں کیا۔ بھوک سے مر گیا مگر چوری نہیں کی، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور یہ کتا جیسے عام کتے ہوتے ہیں ویسا ہی تو ہے،نجس جس کی رال تک حرام قرار دی گئی، پھر بھی اسے جنت میں جگہ ملی؟‘‘

داروغہ جہنم نے ایک بڑا سا رجسٹر دیکھ کر کہا: ’’تم نے خود کشی کی تھی؟ میں نے کہا: ’’تم جھوٹ بولتے ہو۔تمہارے ملک کے وزیر خوراک نے لکھا ہے کہ تم نے خود کشی کی۔ اور یہ بات تمہارے جسم کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے بھی ظاہر ہے۔ میں نے کہا بکواس ہے۔ میرا پوسٹ مارٹم ہوا ہی نہیں۔ مجھے دفنایا گیا تھا اس کے پندرہ روز بعد اسمبلی میں سوال و جواب ہوئے تھے۔ تو کیا میرے گلتے اور سڑتے جسم کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے؟اور تب میں نے اس کو پورا حال سنایا۔

لو تم بھی سنو، تم نہیں جانتے یہ کہاںپیدا ہوا، کہاں رہا، کہاں مرا؟ دنیا اتنی وسیع ہے کہ کوئی کسی کو یاد نہیں رکھتا اور تم کیا جانو کہ جب میری سانس چلتی تھی تب بھی میں زندہ تھا؟ ہاں میں زندہ تھا اور اس طرح کہ موت آئی تھی پر نہیں آئی‘‘ در حقیقت میں پیدائش کے بعد صرف ایک لمحہ ہی زندہ رہا تھا اور دوسرے لمحے سے میری موت شروع ہوگئی تھی۔ بہرحال اس موت کی مکمل کہانی تو وقت پر ہی آئے گی۔ اچھا تم بازار کی اس پانچ منزلہ اونچی عمارت کو تو جانتے ہی ہو۔ اس کے پیچھے ایک طرف سے سنڈاس صاف کرنے کا دروازہ ہے اور دوسری طرف دیوار کے سہارے میرا چھپر…بلڈنگ کا مالک میرے چھپر کو توڑ کر وہاں بھی سنڈاس بنانا چاہتا تھا، اگر میں مر نہ جاتا تو غریب آدمی کی جھونپڑی پر امیر آدمی کی جیت کس طرح دیکھتا۔ اب تو تم مجھے پہچان گئے ہوگے؟ آدمی سے زیادہ اونچی پانچ منزلہ عمارت کو تم پہچانتے ہو، عمارتوں کے سہارے آدمی کو جاننا تو تم کو خوب آتا ہے۔

اس شکستہ حال جھونپڑی میں نے تمام زندگی بسر کی۔ میرے آس پاس اناج ہی اجاج بھرا تھا، مگر بیچ میں دیواریں حائل تھیں اور دیوار کی دوسری طرف جو چوہے آتے تھے وہ دن بہ دن توانا اور موٹے ہوتے جا رہے تھے۔ کئی کئی بار وہ محض اس لیے نہیں آپاتے تھے کہ نکلنے کا راستہ وسیع کرنا ہوتا تھا، مگر میں پھر بھی بھوکا رہا، اس لیے کہ میں بے کار تھا، پیسہ ایک نہیں تھا، اناج مہنگا تھا، میرے لیے موت سستی تھی اور زندگی بہت مہنگی۔

آخر میری موت بھی آئی۔جس دن میری موت آئی اس دن اس پانچ منزلہ اونچی عمارت میں شادی تھی۔ سارا شہر جانتا تھا کہ اس کے پاس ہزاروں بورے اناج کے گوداموں میں بند ہیں مگر کوئی کچھ نہیں کہتا تھا۔ پولیس اس کی حفاظت کرتی تھی۔ بہرحال اس دن میری موت دھیرے دھیرے اپنے سرد ہاتھوں کے ساتھ میری طرف بڑھ رہی تھی۔ میرے پیٹ میں اینٹھن ہونے لگی آنکھیں دھندلی پڑنے لگیں، دوسری طرف سے کھانوں کی خوشبو آرہی تھی۔ مجھے اطمینان تھا کہ میری موت کھانوں کی خوشبووں کے درمیان ہو رہی تھی۔ کیا ہوا اگر مجھے کھانا نہ ملا۔ کھانے کی خوشبوئیں تو مجھے ملی تھیں۔

موت سے چند لمحے پیشتر میرا پیارا کتا اس امیر آدمی کے گھر دیوار کود کر گھس گیا اور کھانا کھا کر آگیا۔ اس کے نوکر نے اس بات پر کتے کو خوب مارا اور وہ کراہتا ہوا میرے پاس آکر پڑ گیا۔۔۔ چیختا رہا۔۔۔ چیختا رہا ۔ میری جان نکل رہی تھی مگر مجھے اس جانور کے سامنے چیخنے میںشرم آرہی تھی۔میرے پیٹ میں آخری بار شدت کا درد ہوا اور پھر میری روح آزاد ہوگئی۔ دونوں ایک ساتھ مرے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہ کھاکر مرا اور میں بغیر کھائے۔

پانچ منزلہ اونچی عمارت سے برات روانہ ہوئی اور دوسری طرف مجھے اور میرے کتے کو ٹھیلے پر ڈال کر کچھ بھنگی لے چلے۔سڑک کے اس طرف امیر آدمی کی برات جا رہی تھی، اور اس طرف سے میرا سرکاری جنازہ۔ سرکار نے اناج کا انتظام نہیں کیا تھا، مگر مرنے والے کو دفنانے کا انتظام کیا تھا۔ میں اس صفائی سے مرا کہ کسی کو پتا تک نہ چلا اور مر کر جب یہاں آیا تو مجھے کچھ خاص تکلیف بھی نہیں ہوئی۔ میں نے احتجاج کرنا سیکھا ہی نہ تھا اور یہ جہنم تو اس سے زیادہ خراب جگہ نہ تھی جہاں میںزندگی بھر رہ چکا تھا۔کہانی داروغہ جہنم نے سنی اور کہا: ’’تم بھوک سے مرے پھر بھی تم جہنم میں رہوگے اور تمہارا وہ کتا جنت میں رہے گا۔‘‘

میں گڑگڑایا… یہ کیسا انصاف ہے؟

وہ بولا۔۔۔ ’’بے وقوف انسان تو کتے سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے۔ تیرا کتا دیوار کو پھلانگ کر پڑوس کی بلڈنگ میںگھس گیا۔ پیٹ بھر کھانا کھایا اور تو آدمی کہلانے والا تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ تو دیوار نہیں کود سکتا تھا؟ توڑ نہیں سکتا تھا؟‘‘

’’لیکن‘‘ … میں نے کہا: ’’میں دیوار کیسے توڑتا، کیسے کودتا، کیا یہ گناہ نہ ہوتا؟

گناہ اور ثواب کے جھمیلے میں پڑنے والے بے وقوف انسان وہ دیواریں کیا خدا کی بنائی ہوئی ہیں؟ تمام دیوار یں انسان نے خود بنائی ہیں، خود کھڑی کی ہیں اور تو انہیں توڑنے میں گناہ و ثواب دیکھتا ہے۔ بیوقوف تیرا کتا تجھسے زیادی سمجھ دار ہے، اس نے اپنا حق تو حاصل کیا اور تو … جسے خدا نے عقل دی ہاتھ پیر دیے اور کام کرنے کی طاقت عطا کی، ایک بزدل کیڑے کی طرح مر گیا۔ انسانوں نے دنیا میں مایوسی کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اور اب عالم بالا میں کتے ہی کتے پیدا کرنے کے بارے میں غور کیا جا رہا ہے۔‘‘lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146