کسی کو شاید صحیح طور پر اس امر کا احساس نہ ہو کہ شکم مادر میں موجود بچہ کتنے خطرات سے دو چار ہوتا ہے۔ یہ بے چارہ بظاہر ایک محفوظ قلعے میں بیٹھا ہوا اور دکھائی نہ دینے والا ذی روح بھی اسی طرح بیماریوں اور تکالیف کے امکانات کا سامنا کر رہا ہوتا ہے جس طرح اس کے والدین یا زندگی کے میدان میں سرگرم عمل بے شمار دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ جس نالی کے ذریعے اس کے جسم میں خوراک اور ہوا جاتی ہے اسی نالی کے ذریعے اس کے خون میں ایسے ایسے زہریلے مادے داخل ہوتے ہیں، جس کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیںسکتے… اور یہ مادے کن کن چیزوں کی وجہ سے اس کے وجود میں پہنچتے ہیں، ان کی طرف بھی آپ کا دھیان نہیں جاسکتا۔
گرد و پیش کی ہر چیز اسے متاثر کرتی ہے اور نہ جانے کون کون سے زہریلے اور نقصان دہ اجزاء اس کے خون میں شامل ہوکر گردش کرنے لگتے ہیں۔ اس کی ماں جو پرفیوم استعمال کرتی ہے… جس کیمیکل سے گھر کی صفائی میں مدد لیتی ہے، گھر کے فرنیچر پر جو پالش موجود ہے، ان سب میں شامل کیمیکلز سانس کے ساتھ اور خوراک کی نالی کے ذریعے اس کے جسم میں جا رہے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے ان میں بہت سے عوارض اور پیدائش کے وقت سے موجود بہت سی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں حتی کہ کئی پیدائشی نقائص یا کسی قسم کی معذوری کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ کچھ اثرات آئندہ زندگی میں بھی نمودار ہوسکتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک اس پہلو پر توجہ ہی نہیںدی گئی تھی لیکن گزشتہ دنوں تحقیق کرنے والوں نے نئی نئی ماں بننے والی چالیس خواتین کے بچوں کا تفصیلی معائنہ کیا اور مختلف ٹیسٹ لیے تو ان کے خون میں متذکرہ بالا طریقے سے شامل ہونے والے کم از کم چھ اور زیادہ سے زیادہ چودہ مادے پائے گئے۔ ان ماؤں کے اپنے خون میں بھی یہ تمام مادے موجود تھے۔ ایک اور تجربے میں بچوں کے خون میں ۳۵ اقسام کے زہریلے مادے پائے گئے۔
شکم مادر میں پروان چڑھنے والے بچوں کے خون میں وہ مادے بھی منتقل ہوتے ہیں جو ان کی ماؤں کے خون میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ ان میں Phathlates نامی وہ کیمیائی مادے بھی شامل تھے جو صابن کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ یہ مادے میک اپ کے سامان اور پلاسٹک کی اشیاء کی تیاری میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یہ کیمیائی مادے بچے کے تولیدی اعضاء پر بہت برا اثر ڈالتے ہیں۔
ان کے علاوہ ان بچوں کے خون میں کیمیائی مادہ Bisphenol-A بھی پایا گیا جو کھانے پینے کی اشیاء کو محفوظ کرنے والے ٹین کے ڈبوں، بچوں کے دودھ کی بوتلوں اور سی ڈیز میں پایا جاتا ہے۔ یہ مادہ سینے کے سرطان کا سبب بن سکتا ہے۔ شکم مادر میں بچے کے خون میں اس کے معمولی سی مقدار کا شامل ہونا بھی آگے چل کر اس کے لیے سینے کے سرطان کا سبب بن سکتا ہے۔ باڈی اسپرے،خوشبویات، نان اسٹک برتنوں اور کپڑوں کو واٹر پروف بنانے والے کیمیکلز میں بھی یہ مادہ پایا جاتا ہے۔
فرنیچر اور بجلی کے سامان میں ایسے کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں جو انہیں آتش زدگی سے کسی حد تک محفوظ رہنے کے قابل بناتے ہیں۔ انسانی خون اور کوکھ میں موجود بچے کے خون میں ان کی بھی موجودگی کے آثار پائے گئے ہیں جو آگے چل کر مہلک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ مغربی ممالک میں سائنس دانوں کی رہ نمائی کی وجہ سے عوام میں شعور پیدا ہوا ہے اور بہت سے حلقوں کی طرف سے حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان اشیاء میں ایسے کیمیکلز استعمال کیے جائیں جو مہلک اور دور رس اثرات نہ رکھتے ہوں۔ ظاہر ہے شکم مادر میں تو بچہ ان اثرات کو قبول کرنے کے سلسلے میں بہت ہی نازک ہوتا ہے۔
مذکورہ چیزیں اب گویا انسانی زندگی کا حصہ بن گئی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم ان کے استعمال میں احتیاط بھول جائیں۔ اس لیے ان تحقیقات کی روشنی میں کم از کم اتنا تو ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ان زہر آلود اشیاء کے اثرات محفوظ کرنے کی فکر کریں۔lll (دہلی کی معروف ڈاکٹر سے بات چیت پر مبنی)