کچھ بغل میں چھپا کے لائے ہیں
دوست بن کر جو آج آئے ہیں
کاش رونا پڑے اسے بھی کبھی
اشک جس نے مرے بہائے ہیں
پہلے حاکم تھے، آج ہیں محکوم
وقت نے دن عجب دکھائے ہیں
جب کیا ان کو بھولنے کا جتن
اور شدت سے یاد آئے ہیں
آندھیو! کیا ملا تمہیں آخر
تم نے کتنے دیے بجھائے ہیں
دل میں یادوں نے کی ہے پھر یورش
جیسے بادل غموں کے چھائے ہیں
جن کا ثانی نہ تھا زمانے میں
ہم نے ایسے گہر گنوائے ہیں
زخم اپنوں سے جو ملے تھے کبھی
ہم نے سینے پہ سب سجائے ہیں
دل ہے کتنا اداس اختر کا
کتنے گہرے غموں کے سائے ہیں