چار پائی صحن کے وسط میں رکھی ہوئی تھی۔ جس کے اوپر اس کے باپ کی میت دو پرانے کپڑوں میں لپٹی پڑی تھی۔ چارپائی کے ارد گرد اس کی محلہ دار عورتیں بیٹھی بین کر رہی تھیں۔
وہ دور کھڑا عورتوں کی اس فنکاری کو دیکھ رہا تھا اور اسے سخت کوفت ہو رہی تھی۔ وہ حیران تھا کہ اس کے باپ کے جیتے جی تو کبھی کسی نے اس کی خیر خبر نہیں پوچھی، کبھی ان کے گھر آکر یہ تک معلوم کرنے کی کوشش نہیں کہ کہ ان کو کسی چیز کی ضرورت ہے یا نہیں… تو آج پھر ان میں یہ جذبات کہاں سے آگئے…؟ اس کو عورتوں کا یوں رونا دھونا بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
پہلے پہل تو اس کا دل چاہا کہ وہ جاکر سب کو روک دے اور کہے کہ :
’’بند کریں یہ ڈرامے بازی، مت بہائیں یہ مگرمچھ کے آنسو۔‘‘
لیکن جب اس نے ان عورتوں کے درمیان میں گم سم بیٹھی اپنی ماں کو دیکھا تو خاموش ہوگیا کیوں کہ پچھلے کچھ عرصہ سے اس کی ماں نے جن مشکلات کا سامنا کیا تھا، ان کو صرف وہی جانتا تھا۔ جب سے اس کے باپ کو کینسر ہوا تھا، اس نے اپنی ماں کو پیٹ بھر کے کھانا کھاتے یا مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے اپنی ماں کی قوتِ برداشت اور صبر و تحمل کو بڑے قریب سے دیکھا تھا۔
اس کی آنکھوں میں بالکل آنسو نہیں تھے۔ وہ کبھی اپنے دونوں ہاتھوں سے کھیلنے لگ جاتا تو کبھی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر نیلگوں آسمان کے یچھے چھپی قدرت کو محسوس کرنے کی کوشش کرا۔ اس کا ذہن تو بالکل خالی تھا لیکن دل کچھ بوجھل ضرور تھا۔ وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب کسی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا! گھبراؤ نہیں بیٹا، اللہ تمہارے لیے بہتر کرے گا۔ اس نے نظریں اٹھا کر اوپر دیکھا تو یہ اس کے اسکول کے استاد تھے۔ اس نے پھر سے نگاہیں جھکا لیں۔
عورتوں کا رونا دھونا اور بین کی آوازیں اب بھی اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ اب تو محلے کے مردوں کی بھی آمد شروع ہوگئی تھی۔ سب اری باری اس کے سر پر ہاتھ رکھتے اور تسلیاں دے کر نکل جاتے، جن میں زیادہ تر تسلیاں تو جھوٹی ہوتیں جب کہ چند ایک خلوص سے بھری ہوتیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا تھا۔
وہ بے چارہ بے بس و لاچار ایک طرف کھڑا خلاؤں میں گھور رہا تھا اور سوچ رہا تاتھا:
’’کیا جس کا باپ فوت ہوجائے، اس کی دنیا اندھیری ہوجاتی ہے…‘‘
یتیم کو دیکھتے ہی لوگوں کی نظروں میں حقارت اور ترس کیوں آتا ہے…؟ کیا یتیموں کی کوئی زندگی نہیں؟‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ وہ جو کئی لمحوں سے صبر کیے ہوئے تھا آخر کار صبر کا بندھن ٹوٹ گیا اور پھر وہ خوب رویا۔ ایک دو عورتوں نے اس کو چپ کرانے کی کوشش کی اور کچھ نے ساتھ لگا کر سر پر ہاتھ بھی رکھا۔
اس کے ساتھ ہی جنازہ کا اعلان ہوگیا کہ دس منٹ بعد جنازہ اٹھایا جائے گا، وہ جلدی سے دوڑا اور باپ کی میت کے پاس جا کھڑا ہوا۔ وہ بہ غور اپنے مرے ہوئے باپ کو دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر اب بھی کرب کے آثار نمایاں تھے۔ چہرے کی سلوٹیں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ بے چارہ ایک لمبے عرصہ تک اپنی بیماری سے لڑا ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر باپ کا ماتھا چوما۔ اس کے باپ کی کھلی ہوئی آنکھیں اس سے معذرت کر رہی تھیں کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے کچھ بھی نہ کر سکا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہی تھیں:
’’پیارے بیٹے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا، کسی سے ڈرنا نہیں، خوب محنت کرنا اور اپنا نام بنانا۔‘‘
اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے جن میں سے کچھ قطرے باپ کی آنکھوں میں جاگرے۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے باپ کی دونوں آنکھیں بند کیں اور پاس بیٹھی ہوئی ماں کے کندھے پر سر رکھ لیا۔ کچھ لمحوں تک دونوں ماں بیٹا آنسو بہاتے رہے، پھر جنازہ اٹھا لیا گیا اور وہ بھی باپ کے جنازے کے ساتھ قبرستان کی طرف چل دیا۔ اس کو لوگوں کی آنکھوں میں اپنے لیے ترس بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
’’لوگ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں، ہر کوئی دوسرے کو مطلب کے لیے استعمال کرتا ہے، ہم دوسروں کے لیے تب تک اچھے ہیں جب تک ہم ان کے کام آتے رہیں اور جس دن ہمیں دوسروں سے کام پڑ جائے اس دن دوسرے ہمارے خلاف ہوجاتے ہیں۔ منافقت تو لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے، سانپ کے اوپر انسانیت کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کو ڈسنا زہریلے ناگ سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور لوگ پل میں تولہ پل میں ماشہ ہوجاتے ہیں۔‘‘
باپ کے جنازے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بھی اس کے ذہن میں یہ باتیں آرہی تھیں۔ وہ اپنی عمر سے کچھ زیادہ ہی بڑا ہوگیا تھا۔ اس نے سب کے ساتھ مل کر جنازہ پڑھا اور باپ کو دفنا کر گھر لوٹ آیا۔ جنازے میں وہی اکا دکا لوگ شریک تھے، جن کے کام اس کا باپ آتا رہا تھا ورنہ اور کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔
چند دنوں تک اس کے گھر میں لوگ افسوس کے لیے آتے رہے، اس کے بعد پھر سب ہی اس سانحے کو بھول گئے ماسوائے ان دونوں ماں بیٹے کے۔ وہ گھنٹوں اپنی ماں سے اپنے باپ کی باتیں کرتا رہتا۔ اس کا باپ ایک محنتی اور ایماندار شخص تھا۔ بازار کے چوک میں اس کی سبزی کی ریڑھی تھی جس پر ہمیشہ ہی تازہ اور سستی سبزی دستیاب ہوتی۔ اس کا باپ لوگوں سے بحث نہیں کرتا تھا۔ جتنے پیسے کوئی دیتا وہ سبزی دے دیتا۔
اس کا ایک ہی بیٹا تھا جس کو اس نے سرکاری اسکول میں داخل کرا دیا۔ جہاں پر کتابیں بھی مفت تھیں اور فیسیں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس کا بیٹا بھی اپنے باپ کی طرح بہت محنتی تھا۔ وہ ہر کلاس میں نمایاں پوزیشن لیتا اور اسی طرح وہ دسویں کلاس میں پہنچ گیا۔ زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی جب اچانک ان تینوں کی زندگی میں ایک طوفان آیا جس نے بالآخر اس کے باپ کی جان لے لی۔
جب ان لوگوں کو پتا چلا کہ باپ کو کینسر ہے تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور کینسر اپنی آخری اسٹیج پر تھا۔ ماں اور بیٹے پر تو جیسے قیامت ہی ٹوت پڑی۔ دونوں سے جتنا ہوسکا اس سے زیادہ کیا۔ ماں کے پاس جو چند ایک زیور تھے وہ بھی بیچ ڈالے۔ باپ کی سبزی والی ریڑھی بھی بک گئی لیکن یہ سب کب تک چلتا۔ سونا، چاندی سے مہنگی تو کینسر کی ادویات تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی گھر کا دانہ پانی ختم ہوگیا اور فاقوں کی نوبت آگئی۔ محلے والے جو پہلے پھر بھی کبھی چکر لگا جایا کرتے تھے اب تو بالکل ہی آنا چھوڑ چکے تھے۔
دونوں ماں بیٹا گھنٹوں خدا سے دعائیں مانگتے رہتے۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے اور پھر آخر کار اس کا باپ مٹی تلے دفن ہوگیا۔ دونوں ماں بیٹوں کو سنبھلنے میں کچھ وقت لگا۔ اس کی انگریزی اور ریاضی کافی اچھی تھی۔ لہٰذا اس نے چھوٹی کلاس کے بچوں کو گھر میں پڑھانا شروع کر دیا۔ اس سے گھر کا خرچہ چلنے لگا، وہ غریب بچوں سے بہت مناسب فیس لیتا۔ اسی دوران اس کا میٹرک کا رزلٹ آگیا اور اس نے ہمیشہ کی طرح نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ اس کو آگے پڑھنے کے لیے اسکالر شپ مل گئی۔ اس نے اچھے نمبروں سے بارہویں کا امتحان پاس کرلیا۔ زیادہ فیسوں کی وجہ سے وہ بی ایس سی میں داخلہ نہ لے سکا اور پرائیویٹ بی اے شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ٹیوشن بھی پڑھا رہا تھا۔ اب اس کو لوگوں کے رویے پڑھنے بھی آگئے۔ وہ دوستوں کی بہت قدر کرتا لیکن دشمن کو بھی دوستی کا موقع دیتا۔ بچوں کو پڑھانے کے بعد وہ باقاعدگی سے روزانہ اخبارات کا مطالعہ کرتا۔
رات کو اپنی ماں سے ڈھیروں باتیں کرتا۔ کسی نے اس کو بتایا کہ وہ بی اے کے بعد مقابلے کا امتحان دے لے۔ چنانچہ وہ اس کے لیے بھی محنت کرنے لگا۔ اس کے لہجے میں ٹھہراؤ آگیا تھا۔ وہ بہت سنجیدہ اور مردم شناس ہوگیا تھا۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہا تھا، محلے والے پھر سے ان کے گھر آنا شروع ہوگئے تھے۔ اس کے گھر چیزیں بھیجتے۔ اس نے بی اے میں بھی امتیازی نمبر حاصل کیے۔ کامیابی کے ساتھ ساتھ اس میں عاجزی آتی جا رہی تھی۔ اس کی اکیڈمی میں بھی آئے روز طالب علموں کا اضافہ ہو رہا تھا۔
اب اس نے پی سی ایس کی تیاری بھی شروع کردی۔ اس کا مطالعہ پہلے ہی بہت وسیع ہوچکا تھا۔ اس لیے اس کو زیادہ مشکل نہیں پیش آرہی تھی۔ وہ سارا سارا دن کتابوں کا مطالعہ کرتا، بڑے لوگوں کی بڑی کامیابیوں کے پیچھے چھپے رازوں کو جاننے کی کوشش کرتا۔ وقت تیزی سے گزرنے لگا۔ اس نے پی سی ایس کا امتحان بھی بہت اچھے نمبروں سے پاس کرلیا۔
اس کامیابی نے اس کے اندر مزید عاجزی اور انکساری کو جنم دیا۔ وہ سب سے کہتا:
’’سیانے کہتے ہیں علم جب انسان کے اندر داخل ہوجائے تو وہ عاجز ہو جاتا ہے اور جب انسان کے اوپر سے گزر جائے تو وہ ماڈرن ہوجاتا ہے۔‘‘
اب اس کے لیے رشتے آنے شروع ہوگئے تھے۔ کبھی ڈاکٹر، کبھی انجینئر، کبھی بزنش مین تو کبھی لینڈ لارڈ۔ لیکن اس نے کبھی بھی کسی کی دولت کی طرف نگاہ نہیں اٹھائی تھی۔ اس کی ماں نے بھی کبھی اصرار نہیں کیا تھا کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اس کا بیٹا جو بھی فیصلہ کرے گا بہت سوچ سمجھ کر کرے گا۔
گورنمنٹ کی طرف سے اس کو گزٹیڈ گریڈ کی نوکری مل گئی تھی، ساتھ میں گاڑی اور گھر بھی ملا تھا۔ اس نے گاڑی تو لے لی لیکن گھر نہیں لیا۔ اس کو اپنے محلہ میں رہنا زیادہ پسند تھا کیوں کہ منافقت اور خلوص کی پہچان اس کو یہیں سے ملی تھی۔ دولت کے پجاریوں اور احساس کے پجاریوں کے درمیان فرق اس نے یہیں سے سیکھا تھا۔ وہ ہر ماہ اپنی آدھی تنخواہ یتیموں میں بانٹتا۔ اپنے پاس صرف وہی رکھتا جس کی اس کو اور ماں کو ضرورت ہوتی۔ سول سروس میں بھی جلد ہی اس نے اپنے پاؤں جما لیے۔ آئے دن رشتہ لینے والوں کا تانتا بندھا رہتا لیکن وہ ہر بار کی طرح بڑے ہی عاجزانہ انداز سے ان کو انکار کر دیتا۔ آج سب لوگ اس کی طرف بھاگ رہے تھے تو اس کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے رتبے اور روپے پیسے کی وجہ سے۔ اس کو لوگوں کا یہ منافقانہ رویہ نہ تو تب پسند تھا جب وہ چھوٹا تھا اور نہ آج جب وہ ایک بڑا آدمی بن چکا تھا۔ آج وہ اپنے آفس سے واپسی پر گھر جا رہا تھا جب راستے میں اس نے ایک گھر کے سامنے لوگوں کا ہجوم دیکھا اور اندر سے رونے کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ وہ جب بھی ایسا منظر دیکھتا تو کچھ پل کے لیے رک جاتا لیکن آج وہ گاڑی سے اتر کر اندر چلا گیا۔
چارپائی صحن کے وسط میں رکھی ہوئی تھی جس کے اوپر ایک آدمی کی میت رکھی تھی۔ چارپائی کے ارد گرد محلہ دار عورتیں بیٹھی بین کر رہی تھیں، جب کہ ان کے درمیان میں ایک عورت بالکل خاموش بیٹھی تھی اور ایک جواں سالہ لڑکی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے میت کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
اس کو یکدم ہی اپنے باپ کی موت یاد آگئی، تب بھی تو بالکل اسی طرح کا منظر تھا وہ جلدی سے باہر نکل گیا۔ گاڑی اسٹارٹ کی اور گھر کی طرف چل دیا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ کچھ دنوں بعد اس نے اپنی ماں سے شادی کے متعلق بات کی تو ماں نے کہا کہ بیٹا تمہاری خوشی میں ہی میری خوشی ہے۔ وہ ماں کو لے کر اسی لڑکی کے گھر پہنچ گیا جہاں کچھ دن پہلے وہ گیا تھا۔ ماں نے رشتہ مانگا، لڑکی کی ماں کبھی اپنی بیٹی کی طرف دیکھتی تو کبھی لڑکے کی طرف۔ اس نے کہا کہ دیکھیں ہمارے پاس آپ کو دینے کے لیے کوئی جہیز نہیں ہے اور یہ بھی کہ میری بیٹی یتیم ہے۔ وہ دروازے کے پاس کھڑا یہ سب کچھ سن کر مسکرا رہا تھا، پھر وہ پاس آیا اور آکر کہنے لگا:
’’کیا آپ جانتی ہیں کہ میں یہ رشتہ کیوں کرنا چاہتا ہوں؟‘‘ لڑکی کی ماں نے حیرانی سے اسے تکتے ہوئے کہا، نہیں۔ وہ مسکرا کر بولا، کیوں کہ … میں بھی یتیم ہوں۔‘‘lll