’’نہیں پڑھا جاتا مجھ سے‘‘ وہ جملہ ہے جو آج کل اکثر والدین کو بچوں کی زبانی سننے کو ملتا ہے۔ پڑھائی سے متعلق اس قسم کے منفی رویے کا اظہار ابتدائی کلاسوں کے بچے کرتے ہیں۔ اکثر والدین اس جملے کو سننے کے بعد بچے کو سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے پڑھائی سے مانوس کرنا چاہتے ہیں، جس کا نتیجہ اور زیادہ منفی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ایسا کیوں ہے اس پر کبھی آپ نے غور کیا؟
ذرا اپنے بچپن کی طرف لوٹ جائیے۔ مسجد یا مکتب سے قرآن پڑھنا سیکھنے سے ہماری تعلیم کی شروعات ہوتی تھی۔ دن بھر کی مصروفیت کھیل کود، کھانا پینا اور سونا ہوا کرتی تھی۔ نہ کوئی پریشر نہ کوئی مصروفیت۔ ایسے میں صرف چند گھنٹوں میں مسجد یا مکتب جاکر پڑھ لینا بچوں کے لیے آسان تھا۔ وہ گھر کا کام کاج بھی خوشی خوشی اپنی روز مرہ کے کھیل کود کا حصہ سمجھ کر کرلیا کرتے تھے۔ وہ جس وقت جو کام کرتے تھے اس کو توجہ اور ارتکاز سے کرتے تھے اور کوئی چیز ایسی نہیں ہوتی تھی جو اس میں خلل انداز ہو۔ مگر اب حالات بدل گئے ہیں۔ بے شمار ایسی چیزیں بچوں کے آس پاس موجود ہیں جو ہر وقت ان سے لگی ہوئی ہیں۔ ٹی وی ہے جو ابتدائی عمر ہی سے بچوں کی پسند بن جاتا ہے۔ موبائل ہے جو کھیل کے وقت بھی ان سے چمٹا رہتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ آج کے بچوں کو توجہ اور یکسوئی میسر نہیں۔ کتاب سے پہلے وہ ٹی وی اور موبائل فون کی تفصیلی معلومات رکھتے ہیں اور پڑھنا بعد میں شروع کرتے ہیں یہ ان کے محبوب مشغلے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان محبوب مشغلوں سے نکال کر چند گھنٹوں کے لیے بچوں کو پڑھائی کی طرف متوجہ کرنا بڑا مشکل کام بن گیا ہے۔ ایک مسئلہ اور ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے بچے اپنے آس پاس کے اسکول میں پیدل یا چند منٹ کی دوری پر پڑھنے جایا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ لمبا سفر کر کے اسکول جاتے اور آتے ہیں۔ بڑے شہروں کا عالم تو یہی ہے کہ بچہ پانچ گھنٹے اسکول میں صرف کرتا ہے اور چار گھنٹے اسکول آنے اور جانے کے لیے بس میں گزارتا ہے، جس سے اس کی توانائی ضائع ہوتی ہے۔ اب اگر گھر آکر بھی اس پر پڑھائی کے لیے دباؤ ڈالا جائے تو ذہنی طور پر وہ اس کے لیے خود کو تیار نہیں کرپاتا۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے کئی اور مناسب طریقے بھی ہیں جن پر عمل کر کے آپ کے بچے تعلیم کے عمل میں شمولیت کو مشغلہ بنانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ ان سطور میں دیے گئے مشورے کسی بھی عمر کے بچوں کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
مسئلہ کوئی بھی ہو اس کو آپ ایک دم سے توڑ مروڑ اور پھر جوڑ نہیں سکتے۔ اگر ہم اپنے ہی شہر میں بننے والے بہت سے جدید پلازوں اور عمارتوں کو دیکھیں تو ان کی تعمیر میں سالہا سال کی جدوجہد نظر آئے گی۔ یہی معاملہ انسانوں کے مسائل کے ساتھ بھی ہے۔ بنتے بھی سالوں میں ہیں اور بگڑتے بھی وقت لگا کر ہی ہیں۔ اسی لیے بچہ ایک دن میں ساری تکنیکس لگا کر فٹافٹ فعال بن جائے گا اس کی توقع ہرگز نہ کریں۔ ان مشوروں پر عمل کریں اور وقت کے ساتھ ساتھ نتائج اپنی مرضی کے بنتے دیکھیں۔
اچھے خیالات فیڈ کریں
انسان چاہے کسی پل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر رہا ہو یا ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر رہا ہو، اس کے پیچھے کار فرما خیالات ہی اس کو تحریک دینے کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان کے سوشل ورکر ایدھی کی مثال لے لیں ان کی ماں ایک روپیہ خود خرچ کرنے اور دوسرا کسی اور پر خرچ کرنے کے لیے دیتی تھی۔ اس طرح بچپن سے ہی یہ خیال ان کے ذہن میں بیٹھ گیا کہ دوسروں کے لیے کچھ کرنا ہی اصل خدمت انسانی ہے۔ اس لیے بچے کے سامنے اسکول کے بارے میں یا ٹیچرز کے بارے میں منفی کبھی بھی نہ بولیں۔ ان کے سامنے ہمیشہ یہ بتائیں کہ اسکول جانا اور پڑھنا مزے کا اور آسان کام ہے۔ انہیں بتائیں کہ اچھے بچے اسکول خوشی سے جاتے ہیں اور وہ پڑھائی سے لطف لیتے ہیں۔ اچھے خیالات جس حوالے سے دماغ میں ڈالیں گے تبھی بتدریج وہ عمل میں بھی نظر آئیں گے۔
علم دوست ماحول
آج کل جس طرح شاپنگ بیگز کو ایکو فرینڈلی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اسی طرح گھر کے ماحول کو بھی پڑھائی فرینڈلی بنانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
اگر آپ یہ چاہیں کہ بچہ پڑھنے بیٹھ جائے اور خود آپ کمرے سے نکل کر گھر کے دوسرے فریق سے لڑنا شروع ہوجائیں تو اس صورت حال میں دھیان لڑائی میں اٹکے گا پڑھائی میں نہیں۔ مثال کے طور پر جس طرح سب نماز پڑھ رہے ہوں تو نماز چھوڑنے کا سوچتے ہوئے بھی سست انسان نماز پڑھ ہی لیتا ہے بالکل یہی معاملہ بچوں کا بھی ہے۔ خود بچے کے پاس اخبار لے کر بیٹھ جائیں نہیں تو آفس کا یا کوئی بھی متعلقہ پیپر ورک ساتھ لے لیں۔ اگر والدہ کے پاس کوئی کام ہو جو بچے کے ساتھ بیٹھ کر سکون سے کرنا ممکن ہو تو وہ کرلیں۔ مطلب یہ ہے کہ بچے کے سامنے ایک ماحول پیش کیا جائے کہ یہ وقت سکون سے پڑھنے کے لیے ہے جب کہ اسے یقین ہے کہ پڑھنا اچھی بات ہے تو اب ماحول بھی سازگار ہے سو وہ پڑھ لے گا۔
توجہ اور ارتکاز
انسان کی توجہ نیوز چینلز پر قتل و غارت کے پروگرامز پر مرکوز کروانا بے حد آسان ہے جب کہ اخلاقی پروگرامز کو دیکھتے ہوئے نیند کا غلبہ فوری طور پر آجانا عام سی بات ہے۔ انسان کی توجہ یا ارتکاز اس وقت تو خاص طور پر بہت کم ہو جاتا ہے جب کہ وہ ایسے کام میں مشغول ہو جو اس کو کرنا مشکل لگتا ہے۔
انسان کی توجہ کا وقت بھی بے حد کم ہوتا ہے۔ انسان کی توجہ بیس منٹ کے بعد تو خاص طور پر دائیں بائیں مرکوز ہو ہی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھتے ہوئے سامنے پڑی کتاب کے علاوہ ہر چیز اہم لگتی ہے۔ سو کتاب پر توجہ برقرار رکھنے کے لیے اگر آپ کا بچہ ہر پندرہ منٹ بعد پانی پینے جانا چاہے یا کوئی بات کرنا چاہے تو کوسنے کی بجائے اجازت دیں۔ اس سے توجہ مرکوز رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ خود بھی بچے کی پڑھائی کے دوران ٹی وی یا موبائل نہ استعمال کریں۔ اس سے بچے کی توجہ آپ کی سرگرمی کی طرف ہی رہتی ہے۔
خود اچھی مثال بنیں
آپ نے نوٹ کیا ہوگا ہم سیاسیات میں جو الفاظ اور طرزِ تخاطب سن رہے ہوتے ہیں ہمیں وہی الفاظ سوشل میڈیا پر بھی اکثر بہت سے لوگ استعمال کرتے نظر آئیں گے۔ الفاظ کا ٹرینڈ بہت جلدی میڈیا کی وجہ سے ایک سے دوسرے تک پہنچ جاتا ہے۔ ہر جماعت کا حامی اپنے لیڈر والے الفاظ استعمال کرتا دکھائی دیتا بھی ہے۔
آپ خود جیسا بن کر دکھا رہے ہوں گے بچہ لاشعوری طور پر ویسا ہی بن جاتا ہے۔ اسی لیے اگر اب بچہ یہ دیکھ رہا ہو کہ آپ کتابوں کو پٹخ پٹخ کر اسکول کی فیسوں کو مسئلہ کہہ کہہ کر اولاد کے سامنے دوہراتے رہیں اور پھر اولاد سے یہ امید بھی رکھیں کہ وہ تعلیم سے محبت کرے تو یہ ناممکن ہے۔ سو خود کو اولاد کے سامنے ایسا بنانا سیکھیں کہ اولاد کو یقین ہو کہ وہ ایک علم دوست انسان کا بچہ ہے اس لیے تعلیم سے محبت کرنا اس کی اپنی ذمہ داری بھی ہے۔
مثبت انداز گفتگو
خاص طور پر پڑھاتے وقت بچے کے ساتھ صبر و تحمل کا دامن تھام کر رکھیں۔ چھوٹے چھوٹے کاموں کو کرنے پر بھی شاباشی دیں۔ تھوڑی بہت حقیقت پر مبنی تعریف ضرور کریں۔ لہجہ دھیما یا درمیانہ رکھیں۔ لفظ ’’نہ‘‘ کی بجائے مکمل جملہ جیسا کہ ’پڑھتے وقت کتاب پر دھیان دو دوسری چیزیں ہاتھ سے چھوڑ دو‘ بولیں۔ مار پیٹ سے ہر صورت پرہیز کریں کیوں کہ مار صرف اس وقت ہی نہیں بعد میں بھی متاثر کرتی ہے۔
دلچسپی کا خیال رکھیں
فیس بک پر ہر ایک کو اپنی ٹائم لائن سب سے دلچسپ لگتی ہے۔ اپنی جو ہوتی ہے اور اپنی مرضي کی چیزیں جو رکھتے ہیں۔ بچے کو مضمون اس کی دلچسپی کے مطابق پڑھنے دیں۔ اگر اس عمر کے بچوں کی بات کی جائے، جس میں مضامین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے تو بچہ اگر کسی میں اپنی دلچسپی دکھادے تو اسے وہی منتخب کرنے دیں، مجبور نہ کریں۔
غیر حقیقی توقعات سے بچیں
آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اپنے بچوں سے ہمیشہ ٹاپ کی توقع نہ رکھیں ورنہ جو صلاحیت اور ذہانت بچے کو اللہ نے دی ہوگی اس کو آپ نمبروں کی ریس میں زنگ لگا دیں گے۔ سو حوصلہ رکھیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت پر کی جانے والی محنت برھا دیں اور ان سے لگائی جانے والی بے جا توقعات گھٹا دیں۔lll