ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور یہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل تماشا ہے۔ آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ کاش وہ اس حقیقت کو جانتے۔ (العنکبوت)
رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے میں تم سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے تو پھر دیکھو کہ وہ کتنا پانی اپنے ساتھ لاتی ہے۔ (صحیح مسلم) مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دنیا سے میرا بھلا کیا ناطہ! میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کے سایے میں گرمیوں کی کوئی دوپہر گزارنے بیٹھ جائے، وہ کوئی پل آرام کرے گا تو پھر اٹھ کر چل دے گا۔‘‘ ترمذی میں حضرت سہل بن عبد اللہؓ کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر کے برابر بھی وزن رکھتی تو اس کو دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہونے دیتا۔‘‘
دنیا میں گزرنے والی انسانی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اس زندگی کا واسطہ تین چیزوں سے ہے:
٭ خود اللہ تعالیٰ کی ذات کی عبادت سے ہے، اس کا مشہور و معروف نام حقوق اللہ ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے سر کے بالوں سے لے کر پیر کے ناخنوں تک کے تمام اعضاء اور بالغ ہونے سے لے کر موت تک کی زندگی کے تمام لمحات میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کے مطابق مکمل طو رپر اللہ تعالیٰ کی ’’غلامی‘‘ اختیار کرلے۔
٭ رشتے داروں، پڑوسیوں، دوست احباب، معاشی تعلقات، سفر و تعلیم وغیرہ سے متعلق ساتھیوں سے واسطہ کو حقوق العباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔
٭ خود انسان کی اپنی ذاتی ضروریات کو حقوق النفس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا تینوں حقوق کی ادائیگی کے لیے انسان کو دنیا کی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، جس سے انکار ناممکن ہے۔ اس لازمی ضرورت کے لیے مستقل ایک طرزِ زندگی ایسا ہونا چاہیے جسے اپنا کر اس دنیا میں بسنے والے تمام انسان بیک وقت بغیر کسی پریشانی کے خوش اسلوبی سے چلتے رہنے میں کوئی رکاوٹ بھی پیش نہ آئے۔ ایسا طرزِ زندگی ’’اسلام‘‘ کے نام سے خود اللہ تعالیٰ ہی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا فرمایا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق، انسان کی ذاتی زندگی، تمام انسانوں کو اجتماعی مفادات کی اس دنیا میں رکھی جانے والی صلاحیتوں کے مطابق رعایت رکھی گئی ہے۔ اسلام نے اس طرزِ زندگی کو ’’حیوۃ الدنیا‘‘ کا نام دیا ہے، جس کے لیے ایمان و اعمالِ صالحہ بنیادی شرط ہیں۔ اس طرزِ زندگی میں نہ دنیا کو چھوڑنا پڑتا ہے، نہ انسان کی پیدائش کا مقصد فوت ہوتا ہے، نہ اللہ تعالیٰ سے تعلق ٹوٹتا ہے او رنہ ہی آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی برباد ہوتی ہے۔
اس کے بالمقابل جتنے بھی طرزِ زندگی آج دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ زندگی کی انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے ہیں، جن میں نہ دنیا کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے، نہ حقوق اللہ کی رعایت کا خیال دکھائی دیتا ہے، نہ اجتماعی مفادات کی اہمیت سمجھی گئی ہے۔ نہ ذاتی زندگی کا کوئی لحاظ اپنی جگہ پاسکا ہے۔ نہ آخرت کی زندگی کو بنیاد کے طور پر لیا گیا ہے، نہ اپنی پیدائش کے مقصد پر نظر رکھی گئی۔ نہ اللہ تعالیٰ کی طاقت، قوت، پکڑ، محاسبے کے خوف کو مانا گیا ہے، بس جس طرح جیسے بن سکے دنیا کو حاصل کیا جائے، یہ اپنے ہی قبضے میں رکھی جائے، یہی وہ طرزِ زندگی ہے جس کی بنیاد صرف اور صرف دنیا ہے اس طرزِ زندگی کو اگر قرآن کی زبان میں نام دیا جائے تو ’’حیوۃ الدنیا‘‘ کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے؟انسان کا روزانہ کا مشاہدہ ہے کہ اس کی طرح کے سیکڑوں انسان مٹھی بند کیے ہوئے بالکل خالی ہاتھ اس دنیا میں آتے ہیں اور سیکڑوں انسان ہتھیلیاں کھولے ہوئے بالکل خالی ہاتھ اس دنیا سے واپس چلے جاتے ہیں (گویا یہ ایک خاموش پیغام ہے کہ آنے والا آتے ہوئے مٹھی بند کر کے دنیا پر اپنی حرص کا اظہار کر رہا ہے اور جاتے ہوئے ہتھیلیاں کھول کر اپنی ناکامی اور بے بسی کا اعلان کر رہا ہے) کیا اس اٹل حقیقت کے تاقیامت برقرار رہنے کے اعتراف کے بعد اس کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ اس طرزِ زندگی کو زندگی کا مقصد بنا کر اختیار کیا جائے؟ قرآن کی زبان میں انہیں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ’’ان کے دل ہیں (مگر) وہ ان سے سوچتے سمجھتے نہیں۔‘‘ ’’ان کی آنکھیں ہیں،مگر ان سے دیکھتے نہیں۔‘‘ کیا ان کے کانوں میں سماعت کی قوت کا علم ہونے کے باوجود انہیں یہ اطلاع دی جاسکتی ہے ’’ان کے کان ہیں (مگر) ان سے سنتے نہیں۔‘‘
حیوۃ الدنیا والا طرز زندگی اختیا رکرنے سے پہلے کیا اس تحقیق کی ضرورت نہیں کہ خود اس دنیا کی حقیقت اس کے پیدا کرنے والے کے نزدیک کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بھرپور اور واضح انداز میں اس کی حقیقت بیان فرمائی ہے۔ آپؐ نے آخرت سے موازنہ فرماتے ہوئے ایک مثال کے ذریعے یوں ارشا دفرمایا کہ تم میں سے کوئی سمندر کے پانی میں انگلی ڈال کر نکال لے اور دیکھے کہ سمندر میں کیا کمی آئی۔ یعنی انگلی میں لگے ہوئے اس گیلے پن کو سمندر کے لامحدود پانی سے جو نسبت ہوسکتی ہے دنیا کو آخرت سے بس اتنی ہی نسبت سمجھو۔ ایک مرتبہ بکری کے مردار بچے کی حقارت صحابہؓ کے ذہن میں نقش کراتے ہوئے آپؐ نے ارشاد فرمایا: جس طرح بکری کا یہ مردار بچہ تمہارے نزدیک بے مقصد ہے، اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ دنیا فانی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے وہی طرزِ زندگی مراد ہے جسے فقط دنیا ہی کو مقصد بنا کر اختیار کیا جائے ) ان ارشادات مبارکہ کی روشنی میں اسے بھی ذہن نشین رکھا جائے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دنیا کی قیمت مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ کا انکار کرنے والوں کو پانی کا ایک گھونٹ بھی میسر نہ آتا۔ کیا ان حقائق کے معلوم ہونے کے بعد اس طرزِ زندگی کو اہمیت دی جانی چاہیے؟lll