دروازے کی گھنٹی کی مسلسل آواز سے میں بڑبڑاتی ہوئی دروازے کی طرف لپکی ’’خدایا گھنٹی پر انگلی رکھ کر لوگ ہٹانا بھول جاتے ہیں۔‘‘ بڑبڑاتے ہوئے میں نے دروازہ کھول دیا۔
سامنے کام والی ماسی صغریٰ کھڑی تھی (کام والی جوان ہونے کے باوجود ماسی ہی کہلاتی ہے)۔ اس کا افسردہ چہرہ دیکھ کر میں گھبرا سی گئی اور پوچھا ’’ کیوں کیا ہوا صغریٰ؟‘‘ میرے پوچھتے ہی اس نے رونا شروع کر دیا۔
’’ارے رو کیوں رہی ہو، اندر آؤ۔‘‘ میں ایک طرف ہٹ گئی اور اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ وہ دو پٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھتی ہوئی اندر آگئی۔ میں نے گلاس میں پانی انڈیلا اور اس کے آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’لو پانی پی لو۔‘‘
جب اس نے گلاس لینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں چونک گئی۔ اس کی کلائی سے خون رس رہا تھا۔ میں نے جلدی سے گھبرا کر پوچھا ’’یہ کیا ہوا ہاتھ کو؟ کیسے چوٹ لگی تمہارے؟‘‘
اس نے روتے ہوئے بتایا کہ ’’میرے میاں نے مارا ہے مجھے۔‘‘
’’آخر کیوں…؟‘‘ میں نے تیز لہجے میں پوچھا۔
’’باجی اس نے مجھے کہا کہ تم اپنی ماں کے گھر نہیں جاؤگی۔ کیوں کہ آج مجھے اماں کے ہاں جانا تھا، آپ کو بھی تو بتایا تھا ناں؟‘‘
مجھے یاد آیا کہ کل اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں دیر سے کام پر آؤں گی۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا۔
’’میں نے صبح اس کو ناشتے کے دوران بتایا کہ آج اماں کی طرف جاؤں گی ان کی طبیعت خراب ہے، ڈاکٹر کو دکھاؤں گی پھر کام پر جاؤں گی، تو وہ بھڑک اٹھا اور بولا: ’’کیوں تمہارا بھائی نہیں لے جاسکتا اس کو دوا کے لیے؟‘‘ صغریٰ نے روتے ہوئے بتایا کہ ’’باجی بھائی کئی مہینوں سے اماں کی طرف نہیں آیا جب سے وہ اماں سے لڑ کر گیا ہے۔‘‘
صغریٰ زمین پر بیٹھ گئی اور بتایا کہ اس بات پر اس کے شوہر کو غصہ آگیا اور بولا ’’تم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے اپنی ماں کا… بھائی کو پیگام بھجواؤ ماں کی بیماری کا… تمہارے بھی بچے ہیں، گھر ہے، کام ہے۔‘‘
’’باجی جب میں نے ضد کی کہ نہیں میں جاؤں گی اماں کی طرف، تو اسے غصے آگیا اور قریب پڑی چھری میرے ہاتھ پر دے ماری جس سے خون نکل آیا۔ وہ تو بک بک کرتا کام پر چلا گیا اور میں یہاں چلی آئی۔‘‘ اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا۔
اس کا دکھڑا سن کر مجھے افسوس ہوا، میں نے جلدی سے فرسٹ ایڈ بکس نکالا اور اس کی مرہم پٹی کردی۔ وہ تھوڑی مطمئن سی ہوگئی اور بولی ’’اچھا باجی میں کام کیے دیتی ہوں شام تک اماں کی طرف جاؤں گی۔‘‘
میں نے کہا: ’’اچھاکپڑے رہنے دو، جب تمہارا زخم ٹھیک ہوجائے پھر دھو دینا۔ مگر پہلے تم اپنے میاں کو آرام اور پیار سے سمجھاؤ، جب وہ راضی ہوجائے تو چلی جانا اماں کی طرف۔ ’’میں نے بکس کو بند کرتے ہوئے کہا تو وہ بولی: ’’باجی وہ بہت اکھڑ دماغ کا آدمی ہے، اسے سمجھانا اونٹ کو رکشے میں بٹھانا ہے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولی: ’’بسی اسی طرح چلتا رہتا ہے‘‘ اور اپنے کام میں جٹ گئی۔
مجھے اپنی ماں کی وہ کہاوت یاد آگئی کہ شوہر اپنی بیوی کو ایک آنکھ سے ہنساتا اور دوسری آنکھ سے رلاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ میاں بیوی چاہے جتنا ہی لڑ لیں لیکن دوسرے دن اگر میاں تھوڑی توجہ اور پیار سے بات کرلے تو بیوی بھی سب کچھ بھول کر نارمل ہوجاتی ہے۔ میں انہی سوچوں میں گم تھی اور سبزی کاٹ رہی تھی کہ صغریٰ صفائی سے فارغ ہوکر کچن میں برتن دھونے آگئی۔ میں نے اسے ٹٹولنے کے لیے کہا ’’صغریٰ ایسا کرتے ہیں تمہارے میاں کو کڑا لگواتے ہیں۔‘‘
وہ حیرانی سے بولی: ’’کیسا کڑا؟ یہ کیا ہوتا ہے باجی…؟‘‘
میں نے اسے دفعہ 498A اور ڈومسٹک وائلنس ایکٹ کے بارے میں بتایا۔ اس نے یہ سنا تو تنک کر بولی ’’نا بابا نا‘‘ میں اتنی گئی گزری نہیں کہ اپنے میاں کو تھانے بھجواؤں اور وہ لوگ اسے اس طرح بے عزت کریں اور ہاتھ میں کڑا بھی ڈال دیں۔ میں ڈوب کر مر نہ جاؤں جو ایسی حرکت کروں۔ یہ کیسا قانون نکالا ہے حکومت نے؟‘‘
میں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا: ’’حکومت نے عورت کی سیفٹی کے لیے یہ قانون بنایا ہے تاکہ عورت کو تحفظ دیا جائے اور مرد کے تشدد سے بچایا جائے۔‘‘
صغریٰ نے تڑک کر جواب دیا: ’’مرد کہاں برداشت کر پائے گا یہ سب کچھ! وہ عورت کو فوراً طلاق کا کاغذ پکڑا دے گا، اس طرح تو کتنے گھر برباد ہوجائیں گے۔ یہ حکومت کو کیا سوجھی ہے؟ حکومت میں تو پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں، یہ کیسا جاہلوں والا قانون پاس کر دیا ان لوگوں نے؟ حل تو عورت کے پاس ہے کہ بیٹی کی طرح بیٹے کی تربیت پر بھی زور دے۔‘‘ میں ایک ان پڑھ عورت کی دانش پر حیران تھی، کیسا سوال تھا اس کا جس میں جواب بھی چھپا تھا! lll