ملک میں رہ رہ کر مسلم پرسنل لا اور تین طلاقوں کا اشو اٹھایا جاتا ہے۔ پڑوسی ملک میں خواتین پر تشدد کے خلاف بتائے جا رہے قانون کے تناظر میں ہمارے یہاں بھی میڈیا میں اس بات پر بحث ہوئی کہ قرآن تو ’واضربوھن‘ عورتوں کو پیٹنے کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے اسلام تو عورتوں پر تشدد کا حامی ہے۔ اسی طرح کے اعتراضات اور سوالات اسلام، قرآن اور مسلم پرسنل لا پر اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ اور یہ سوالات نہ تو کوئی نئی بات ہیں اور نہ ایسے ہیں کہ ان کا جواب مطلوب ہو بلکہ یہ وہ ہیں جن کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی ایک خاص قسم کی شبیہ بنانے کی کوشش ہوتی ہے اور کسی نہ کسی طور پر اس کا اثر بھی عوام کے ذہنوں پر پڑتا ہی ہے۔
حالیہ دنوں میں تین طلاقوں کو لے کر بحث چلی کہ کیوں نہ بیک وقت تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق مانا جائے۔ اس کے پیچھے منطق بھی ہے اور شرعی دلائل بھی۔ لیکن یہ بحث دراصل اس بڑے منصوبہ کا حصہ ہے جو حکومت مستقبل میں نافذ کرنا چاہتی ہے اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ یک طرفہ طلاق پر پابندی عائد کر کے اسے غیر قانونی قرار دیا جائے اور جس مرد یا عورت کو طلاق دینی یا لینی ہو وہ بہ ہرحال عدالت ہی کے ذریعے ایسا کرسکے۔ اپنی اس مہم کے جواز کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ ’’یہ ظلم ہے کہ مرد جب چاہے عورت کو طلاق دے دے اور اگر ایسا ہے تو عورت کو بھی یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ مرد کو جب چاہے طلاق دے دے۔‘‘
حکومت کا یہ منصوبہ کب اور کس صورت میں نافذ ہوگا اس بارے میں تو کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ البتہ بیک وقت تین طلاقوں کے بارے میں غور و فکر کی یقینا ضرورت ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ طلاق اور طریقۂ طلاق کے سلسلے میں مسلمانوں میں شعور کی بیداری اور علم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مہم چلائے گا۔ ملک کی معروف دینی جماعت، جماعت اسلامی ہند کی قیادت نے بھی ایک پریس کانفرنس میں اسی طرح کی کوشش شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
ایک وقت میں اگر کوئی تین طلاق دے تو تین طلاقتیں واقع ہوں گی یا ایک ہی طلاق واقع ہوگی اس میں فقہی مسالک کے درمیان اختلاف ہے۔ مگر یہ بات بالاتفاق مانی جاتی ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینا بدعت ہے اور قرآنی طریقہ کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیک وقت تین طلاقوں کو تین طلاق تصور کرلینا حضرت عمر فاروقؓ کے دور سے ان کے حکم پر شروع ہوا، اس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔
نماز دین کا بنیادی ستون ہے۔ ایمان لانے کے بعد جو سب سے پہلا فرض ایک مسلمان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز پنج گانہ کی ادائگی ہے۔ مگر دیکھئے کہ قرآن مجید میں نماز کا طریقہ کہیں بیان نہیں ہوا۔ البتہ وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے جو نماز کے لیے لازمی عمل ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں وراثت کے مسائل واضح انداز میں بیان کیے گئے ہیں اور بتا دیا گیا ہے ورثہ میں کس صورت میں کس وارث کو کتنا حصہ ملے گا۔ اس کی مکمل وضاحت کا سبب اس مسئلہ کی اہمیت اور اس کے سماجی و معاشرتی اثرات ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سے قرآن مجید نے طلاق کے بارے میں بھی پوری تفصیل بیان کی ہے۔ طلاق کب دینی ہے، کس طرح دینی ہے اور طلاق کے بعد کی جو صورت ہوگی اس سے کس طرح نمٹا جائے گا یہ بھی بیان ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے، جسے اکثر لوگ نظر انداز کر جاتے ہیں کہ قرآن میں طلاق ہی کی وضاحت نہیں کی گئی بلکہ طلاق سے پہلے بھی ایک پروسس یا مرحلہ بتایا گیا ہے۔ طلاق تو بعد کی چیز ہے۔ ایک مسلمان کو طلاق تک پہنچنے کے لیے بھی ایک مرحلہ طے کرنا پڑے گا۔ اس مرحلہ کو ہم اگر اس طرح سمجھیں کہ جس طرح نماز کے لیے وضو کی اہمیت ہے اسی طرح طلاق کے لیے اس مرحلے کی اہمیت ہے جسے ثالثی کہا جاتا ہے۔اب ایک عام آدمی یہ سوال کر سکتا ہے کہ کیا وضو کے بغیر نماز ہوجائے گی؟ ہر ذی شعور کہے گا کہ ہرگز نہیں تو پھر طلاق کے سلسلے میں ایک مرحلے کو چھوڑ کر دوسرے مرحلے پر پہنچنا عقل و شریعت سے کتنا میل کھاتا ہے۔ یہ سوال لازما معنویت رکھتا ہے۔
اس سے پہلے بھی یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ شریعت کی اصل علیحدگی نہیں۔ اسلام علیحدگی پسند نہیں کرتا۔ وہ رشتوں کو جوڑنے اور بنائے رکھنے کی تعلیم دیتا ہے اور ایسا ہی معاملہ رشتۂ ازدواج کے سلسلے میں اسلام اپناتا ہے۔ رشتہ ازدواج کی اصل نباہ اور بناؤ کی صورتوں کی تلاش ہے اور نباہ کی صورتیں نہ مل سکیں تو طلاق پر غور ہوگا اور جب طلاق پر غور ہوگا تو ان طریقوں کو تلاش کیا جائے گا جو طریقے شریعت اور قرآن اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے اور پھر سوال اٹھایا جائے گا کہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف اگر کوئی طلاق دیتا ہے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی۔ اس بات کو اس طرح سمجھیں کہ قرآن میں طلاق کا بھی طریقہ بتایا گیا ہے وراثت اور اس کے حصہ بھی۔ اگر کوئی شخص وراثت کی تقسیم قرآن کے لگائے ہوئے حصوں سے ہٹ کر کرے تو کیا ہوگا؟ للذکر مثل حظ الانثیین (لڑکے کو لڑکی سے دو گنا حصہ ملے گا) لیکن اگر بیٹے اور بیٹی کو برابر دے دیا جائے یا بیٹی کو دو حصہ اور بیٹے کو ایک حصہ دیا جائے تو کیا وہ نافذ العمل ہوگا؟
قرآن مجید نے طلاق سے پہلے کے مراحل کو سورۂ نسا کی آیت ۳۴،۳۵ میں بیان فرمایا ہے۔ ان آیات میں طلاق سے بچنے اور رشتوں کو نبھانے کے لیے چار باتیں بتائی آگئی ہیں:
۱- سمجھانا بجھانا
۲- خواب گاہوں میں علیحدگی اختیار کرنا
۳- تادیبی مار (جس کے بارے میں حدیث میں وضاحت ہے کہ تادیبی ہوگی تعذیبی نہیں)
۴- ثالثی
شروع کی تین ہدایات ایسی ہیں جن کا تعلق شوہر بیوی کے درمیان ہے جب کہ چوتھی بات کا تعلق خاندان اور معاشرے سے ہے۔ اور یہ چاروں ہدایات بھی مرحلہ وار ہیں۔ شروع میں اس بات کی کوشش ہے کہ دونوں کا معاملہ باہمی افہام و تفہیم سے حل ہوجائے اگر نہ ہوسکے تو اہل خانہ مداخلت کریں۔ قرآن نے کہا ’’اگر وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔‘‘
قرآن مجید ہمیں کھول کھول کر ہدایات دیتا ہے اور ہم مسلمان ہیں کہ اس کی ہدایات کو نہ جانتے ہیں اور اگر جانتے بھی ہیں تو مانتے نہیں ہیں۔ اگر آج مسلمان طلاق کے سلسلے میں قرآنی طریقہ کو مرحلہ وار اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو طلاق کے واقعات میں بڑی حد تک کمی آسکتی ہے اور خاندانوں کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکتا ہے اور اگر قرآن کے طریقہ طلاق پر مسلمان عمل کریں اور برادران وطن کے سامنے اس کی عملی مثال بھی پیش کریں تو نہ صرف ان کے تمام اعتراضات ختم ہو جائیں گے بلکہ وہ اسی طریقہ کو اپنے لیے نجات دہندہ تصور کریں گے۔ حقیقت میں مسلمان ہی کیا جو معاشرہ بھی ان ہدایات پر عمل کرے گا وہ اس کے اچھے ثمرات سے فیض یاب ہوکر رہے گا۔lll