آں حضرتﷺ کے بعد مسلمانوں کی حکمرانی او رحضورﷺ کی خلافت کی ذمے داری حضور کے قریب ترین ساتھی پر ڈال دی گئی۔ یہ تھے حضور پاک کے زندگی بھر کے دوست اور صدیق حضرت ابوبکر۔ وہ مدینہ منورہ میں کپڑے کا کاروبار کرتے تھے جو خلافت کی ذمے داری اٹھانے کے بعد بند کرنا پڑا کیوں کہ تجارت اور عوام کے مسائل ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔
فرمایا کہ جب حاکم وقت اور خلیفہ کی دکان موجود ہوگی تو کوئی گاہک کسی دوسری دکان پر کیسے جائے گا پھر یہ بھی کہ عوام اور ریاست کے مسائل اتنے ہوا کرتے ہیں کہ ان کے لیے وقت کیسے نکل سکتا ہے۔ تجارت، دکانداری اور کاروبار مملکت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ چناں چہ خلیفہ اول نے مجبور ہوکر اپنی دکان بند کر دی، اب سوال یہ پیدا ہوا کہ دکاندار کی ضروریات کہاں سے پوری ہوں۔ ان کے گھر بار کی ذمے داری کون اٹھائے یعنی ان کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہو۔
اس حکمراں کی حالت تو یہ تھی کہ مدینہ کے مختصر سے شہر کے ہر گھر کی حالت کا انھیں علم تھا کہ کون کس حال میں رہتا ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے۔
ایک بڑھیا تھی جس کا کوئی نہیں تھا لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ موجود تھا جو اس بڑھیا کے کھانے پینے کا بندوبست خود کرتا تھا۔ خلیفہ کے معتمد ساتھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب اس بڑھیا کا پتا چلا تو وہ صبح کے وقت کھانے پینے کا سامان لے کر اس کے گھر پہنچ گئے جہاں جاکر معلوم ہوا کہ وہ کھانا کھا چکی ہے اور دھلے ہوئے برتن سامنے پڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ بڑھیا کے پاؤں دباتا اور روتا رہا کہ اے ابوبکر تم ہمارے لیے زندگی اتنی مشکل کیوں کر رہے ہو۔
یہی ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بن کر جب اپنے ساتھیوں کے سامنے بیٹھا کہ کاروبار سلطنت اب کیسے اور کس طرح چلایا جائے تو کہاکہ آپ لوگ میری تنخواہ مدینہ کے ایک مزدور کے برابر مقرر کر دیں کیوں کہ اس اجلاس کی پہلی آئٹم خلیفہ کی تنخواہ تھی۔ اس پر ساتھیوں نے عرض کی کہ جناب مزدور کی تنخواہ تو بہت کم ہوتی ہے اس پر آپ کا گزارہ نہیں ہوگا، تب اسلامی تاریخ کے اس سب سے پہلے اور بڑے حکمراں نے آنے والے حکمرانوں کے لیے یہ تاریخی جملہ کہا اور ایک اسلامی حکومت کے بجٹ کا فیصلہ بھی کر دیا کہ پھر مزدور کی تنخواہ بڑھا دی جائے، اس طرح میری تنخواہ بھی خود بخود بڑھ جائے گی اور میری ضرورت پوری ہوتی رہے گی۔
یہ اس حکمران کا فیصلہ تھا جو حکمرانی کے لیے خلیفہ نہیں بنا تھا بلکہ خدمت خلق کے لیے اس نے یہ ذمے داری قبول کی تھی اور وہ بھی ساتھیوں کے اصرار پر کہ حضورﷺ کی زندگی مبارک کے آخری دن ابو بکر کی رفاقت اور امامت میں گزرے تھے اور صحابہ کرام کا متفقہ فیصلہ تھا کہ یہ بھاری ذمے داری حضرت صدیق اکبر کے سپرد کر دی جائے کیوں کہ ان سے بڑا آدمی اور کوئی نہیں اور نوزائیدہ مملکت کو یہی سنبھال سکتتے ہیں جنہوں نے حضورﷺ سے براہ راست تربیت حاصل کی ہے۔ عمل اور عقیدے میں ان سے زیادہ مضبوط اور کوئی نہیں۔
تو یہ تھا ایک نوزائیدہ نوخیز اور بالکل ہی نو عمر حکومت کا پہلا بجٹ جس کا بنیادی اصول اس کے پہلے حکمراں نے طے کر دیا تھا کہ اس مملکت کا حکمراں اپنے عوام میں سے کسی سے بھی زیادہ خوش حال نہیں ہو سکتا۔ مدینے کے مزدور اور مدینے کے حکمراں کی آمدنی اور تنخواہ بالکل برابر ہوگی۔ نیکی و پرہیزگاری اپنی جگہ لیکن شہری حقوق سب کے برابر نہ کوئی بڑا نہ کوئی چھوٹا۔ بالکل مساوی۔ اگر کوئی عام شہری اپنی کسی محنت اور کسی تجارت وغیرہ سے زیادہ کما لیتا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔lll