آپ کا تعلق کیرلا سے ہے۔ ملیالی زبان اور انگریزی کی مشہور و معروف مصنفہ ہیں۔ ان کی مادری زبان اور انگریزی دونوں ہی زبانوں میں لکھی گئی کتابیں اپنے اندر ادبی کشش رکھتی ہیں۔ کسی پابندی کے بغیر غور و فکر میں آزادی کے راستہ کو اختیار کرلیا تھا۔ اچانک قدیم اقدار اور رسوم و رواج کے خلاف اپنے قرطاس و قلم کے ذریعے بغاوت کا علم بلند کرنا شروع کیا۔ ان کے اس رویہ سے لوگ حیرت زدہ ہوگئے تھے کیوں کہ وہ قدامت پرست خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن ان کے معیاری ادب، اچھوتے اسلوب نگارش اور زبان کی چاشنی نے ان کی شہرت اور مقبولیت پر کسی کو اثر انداز ہونے نہیں دیا۔ چناں چہ وہ آسمانِ ادب پر تابندہ ستارہ کی طرح چمکتی رہیں اور ان کے پرستاروں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا۔
ایک بار پھر انھوں نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچادی۔ اس کی تو کسی کو بالکل ہی توقع نہیں تھی۔ پورے میڈیا پر وہ چھا گئیں جب انھوں نے اچانک یہ اعلان کر دیا کہ میں دین اسلام قبول کر رہی ہوں۔ ان کے اس فیصلہ کی خبریں تمام ہی اخباروں میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کے انٹرویو شائع کیے گئے۔ خاکسار ان کو پابندی سے پڑھتا رہا۔
پہلے انھوں نے خواتین کے حجاب کی پرزور تائید کی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ کیرلا کے دوکان داروں نے اپنے پرانے بورڈ اتار ڈالے۔ ان کی جگہ ثریا حجاب سنٹر، ثریا برقعہ کارنر وغیرہ جیسے نئے نئے بورڈ آویزاں کیے گئے۔ دوسرا اعلان انھوں نے یہ کیا کہ شوہر ایک عورت کا محافظ ہوتا ہے۔ کسی خاتون کو تنہائی کی زندگی نہیں گزارنی چاہیے۔ ان کے شوہر وفات پاچکے تھے۔ اعلان کیا کہ میں بھی کوشش کروں گی اگر کوئی مناسب رشتہ ملا تو شادی کروں گی۔ ان کے بیٹے خود کفیل تھے۔ انھوں نے شادی تو نہیں کی البتہ ایک عرصہ کے بعد پونہ میں مقیم اپنے فرزند کے پاس چلی گئیں۔ انھیں کے گھر میں ۲۰۰۹ میں اس نے دار فانی سے کوچ کیا۔ اس دن وہاں بڑا ہنگامہ ہوا۔ فسطائی طاقتوں کا مطالبہ تھا کہ ان کی آخری رسومات ہندو مذہب کے مطابق ادا کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تو ’’گھر واپسی‘‘ ہوگئی تھی۔ ان کے بیٹے کے دل پر ماں کی جدائی کا گہرا اثر تو تھا ہی ادھر یہ ہنگامہ۔ سب کو مخاطب کرنے کے لیے کھڑا ہوا۔ صرف ایک جملہ کہا۔
انگریزی اخبار نے جو نقل کیا تھا اس کا ترجمہ یہ ہے۔ میری ماں نے اپنی زندگی میں اپنے دین کو تبدیل کرلیا تھا، اب اس کے مرنے کے بعد اس کا مذہب تبدیل کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ کیرلا میں اپنی مایہ ناز ادیبہ دختر کی موت پر سوگ منایا جا رہا تھا۔ حکومت فیصلہ کے انتظار میں تھی۔ پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کے جسد خاکی کو وہاں منگا لیا گیا۔ اسلامی شریعت کے مطابق تجہیز و تکفین ہوئی۔ نماز جنازہ کے بعد ایک مسجد کے جوار میں ان کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ غفر اللہ لہا۔
روزِ وفات تو ان کے فرزند کے ایک جملہ نے سب کو ٹھنڈا کر دیا تھا۔ اب ہندو روز نامہ میں خبر شائع ہوئی ہے کہ بمبئی کی بالی ووڈ میں کملہ ثریا کی ذاتی اور ادبی زندگی پر فلم بنانے کا منصوبہ مکمل ہو چکا ہے۔ ودیا بالن صاحبہ ثریا کا اس فلم میں کردار ادا کریں گی۔ اسلام قبول کرنے سے قبل کی زندگی ظاہر ہے بعد کی زندگی سے مختلف رہی ہے اور اصل اور اہم زندگی وہ ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد کی ہے۔ اسلام لانے کے بعد پچھلی زندگی سے تائب ہوکر انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ گزشتہ زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
ایک دیکھنا یہ ہے کہ فلم ساز ان کی زندگی کے دو مختلف پہلوؤں کے درمیان کس طرح توازن پیدا کرتے ہیں اور کیا ہو ان کی زندگی کے اس پہلو کو جو اسلام لانے کا سبب بنا اور انھوں نے جس طرح نئی زندگی پر خود کو تمام مخالفتوں کے باوجود قائم رکھا، انصاف پسندی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ پیش کر پاتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ موصوفہ کو بھی Realثریا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔lll