امت مسلمہ کے تمام افراد کا فرض ہے کہ قرآنِ حکیم میں دیے گئے ضابطۂ حیات ، دستور العمل اور قواعد و ضوابط کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’اللہ کی رسی (قرآن مجید) کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور باہمی پھوٹ کا شکار نہ بنو۔‘‘
دین اسلام میں مساجد کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ مساجد مسلمانوں کے لیے ایک عظیم مرکز کا درجہ رکھتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’آباد کرتے ہیں اللہ کی مساجد کو صرف وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر، اور آخرت کے دن پر، اور قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکوٰۃ اور نہیں ڈرتے کسی سے سوائے اللہ کے، توقع ہے ایسے لوگوں کے بارے میں کہ ہوجائیں وہ منزل پانے والوں میں سے۔‘‘ (سورۃ التوبہ)
امت مسلمہ کرۂ ارض کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہونے کے باوجود ذلیل و رسوا اس لیے ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عامل نہیں۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کی فرماں بردار قوم کبھی بھی زوال کا شکار نہیں ہوتی۔
دورِ نبویؐ میں مساجد کا کردار
دورِ نبویؐ میں معاشرتی زندگی کے تمام در پیش مسائل کا حل مساجد ہی میں ہوا کرتا تھا۔ مساجد میں فیصلے ہوا کرتے تھے اور وہیں اصلاحی پروگرام ترتیب دیے جاتے تھے۔ یہ نظام خلفائے راشدینؓکے زمانے میں بھی قائم رہا۔ مساجد کو ہی تعلیم او رعدل و انصاف کا مرکز بنایا گیا۔ مساجد میں در پیش مسائل کے فیصلے صحیح اور بر وقت ہوا کرتے تھے، رشوت اور سفارش کا نام و نشان بھی نہیں تھا اور نہ کوئی جھوٹی گواہی کا تصور تھا۔ مسجد کے احترام میں لوگ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ڈرتے تھے۔ لوگوں کا کردارِ عمل بلند ہوا کرتا تھا۔ شادی بیاہ کی تقریبات بڑی کفایت شعاری اور سادگی کے ساتھ مساجد ہی میں سر انجام پایا کرتی تھیں۔ جب تک مساجد کو مرکز کی حیثیت حاصل رہی، مسلمان کبھی مایوسی اور تنہائی کا شکار نہیں ہوئے۔ اس لیے کہ مساجد اجتماعیت کا نشان تھیں۔ مساجد میں علماء کو بلند مقام حاصل رہا ہے اور عالم کی تعریف یہ ہے کہ جو قوم کے افراد کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ان کی راہ نمائی علم و عمل کے نور کی جانب کرے۔
زوال پذیر معاشرے کی اصلاح، مساجد میں متذکرہ نظام رائج کیے بغیر قطعی طور پر ممکن نہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مساجد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، باعمل، امت کے درد مند، اسلام کی اعلیٰ و روشن تعلیمات کا مجسم پیکر علماء اور خطباء کا ہونا اشد ضروری ہے۔ کیوںکہ ایسے علما ہی مسجد کو مرکز بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مسجد وہ مقام ہے جہاں اسلامی معاشرت نشو ونما پاتی ہے۔ علم دین کی اشاعت کا بہترین مرکز بھی ہمیشہ سے مسجد ہی رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان نماز پنج گانہ کی ادائی کے علاوہ اخوت، مساوات اور اتحاد، ایثار و ہم دردی کے قیمتی جواہر مسجد سے ہی حاصل کرتے تھے، جو آج بدقسمتی سے بالکل مفقود ہیں۔ آدابِ مجلس اور آدابِ معاشرت کے اصولوں کی عملی تربیت بھی مساجد ہی میں سر انجام پایا کرتی تھی لہٰذا اسلامی معاشرت کی تعمیر و ترقی کے لیے مساجد کو مرکز بنانا ہی موزوں ہے۔ ان کے بغیر عامۃ المسلمین کی تربیت اور اصلاحِ نفس مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ مساجد جیسا عظیم الشان نظام دنیا کے کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں۔ اس نظام کے قائم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی امت مسلمہ اور مسلم معاشرے میں اسی تبدیلی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جو رسولؐ اور صحابہ کرام کے نفس قدم چومتی ہوئی آگے بڑھے گی۔
ارشادِ رب کریم ہے کہ ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین کی کل مخلوق اور پرپھیلائے ہوئے اڑنے والے کل پرندے اللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں اور سب اپنی نماز اور تسبیح سے واقف ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں، اللہ کو معلوم ہے۔‘‘(سورۃ النور)
اکثر مسلمان صرف یہی مانتے اور سمجھتے ہیں کہ نمازوں کو مقررہ اوقات پر بڑھ لینا ہی کافی ہے اور مساجد صرف اس فرض کی ادائگی کی جگہ ہیںجب کہ ایسا نہیں ہے۔ رسول پاکؐ اور آپ کے صحابہ کے دور کی تاریخ بتاتی ہے کہ مساجد صرف نماز کی باجماعت ادائگی ہی کے لیے نہ تھیں بلکہ وہ اسلامی تہذیب و ثقافت، سیاست و سفارت اور تعلیم و تربیت کا بھی مرکز ہوا کرتی تھیں۔
سیاسی وفود کی روانگی اور استقبال مساجد سے ہوتا تھا۔ اور تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ وہ امت کی وحدت اور اتحاد کا بھی مرکز تھیں جہاں سب لوگ یکساں طور پر جمع ہوکر دین و سیاست سے متعلق فیصلے کیا کرتے تھے۔
بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ مساجد کا وسیع کردار سمٹ کر رہ گیا اور پہلے تو محض نماز پنجگانہ کا مرکز ہوئیں اور بعد کے زوال نے انہیں محلوں اور قومی سیاست کی گندھ کا مرکز بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسجدوں میں فرقہ بندی ہوتی ہے، مسالک کی بنیاد پر انہیں بانٹ دیا گیا ہے اور اب ملک و ملت کے مسائل کو لے کر نہیں بلکہ مقامی سیاست کو لے کر جھگڑوں کا مرکز بنا دیا گیا ہے۔ ان کے نظم و انتظام میں اللہ سے ڈرنے والوں اور اس کا ذکر کرنے والوں کے بجائے ایسے لوگوں کا عمل دخل بڑھ گیا ہے جنہیں اللہ کی یاد او ردین کی سربلندی سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے۔
مساجد کے دینی و تربیتی رول کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ رسولِ پاکؐ کے زمانے میں مرد و خواتین دونوں یکساں طور پر اس کے فیض سے دینی تعلیم و تربیت حاصل کرتے تھے۔ خواتین نماز باجماعت کے لیے بھی مسجد آتی تھیں اور وعظ و نصیحت کے لیے بھی مسجدوں میں ان کا آنا جانا تھا۔ مگر بعد کے دور میں مسجدوں سے خواتین کو دور کر دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم معاشرے کی خواتین دینی شعور سے بہ تدریج محروم ہوتی گئیں اور آج کیفیت یہ ہے کہ پورے پورے شہر ایسے ہیں جہاں خواتین کے مسجد آنے کا نہ تو رجحان ہے اور نہ مساجد میں ان کے لیے انتظام۔ حد تو یہ ہے کہ دینی پروگراموں اور وعظ تو نصیحت کی محفلوں تک میں، اگر وہ مساجد میں ہوں، خواتین کے آنے کا تصور نہیں ہے جب کہ اس سلسلے میں عہد رسالت کے سیکڑوں واقعات اور درجنوں احادیث کو پیش کیا جاسکتا ہے۔
مسجدیں مسلمانوں کے لیے صرف نماز کی ادائگی ہی کی جگہ نہیں بلکہ معاشرے میں دینی بیداری کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔ اگر ہم مسلم سماج میں دینی بیداری لانا چاہتے ہیں تو سماج کو مساجد کی اہمیت اور ان کے مرکزی کردار کے لیے بیدار کرنا ہوگا ۔ اور ۔ اپنے گھر اور اپنے سماج کا مسجد سے مضبوط رشتہ جوڑنا ہوگا۔lll