ہمارے معاشرے میں خواتین کے موضوعات پر خوب بحث ہوتی ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ غیر مسلم معاشرہ اسلام میں عورت کی حیثیت کو لے کر بہت سے اعتراضات کرتا ہے اور الزام لگاتا ہے کہ اسلام میں عورت کو کمزور اور مظلوم بنا کر رکھا گیا ہے۔ اس کے جواب میں کہ عورت اسلام میں مجبور نہیں ہے ہم اس کے حقوق اور اختیارات گنواتے ہیں۔ مثلاً: اسلام سے پہلے عرب میں پیدائش کے بعد لڑکی کو قتل کر دیا جاتا تھا، کیوں کہ لڑکی کا باپ ہونا ان کے نزدیک عار کی بات تھی اور ہندوستانی سماج میں یہ چیز کسی نہ کسی صورت میں آج بھی رائج ہے۔ اسلام نے لڑکی کو سب سے پہلا حق زندگی کا حق دیا۔ اس کے بعد اسلام نے لڑکی کو اچھی پرورش اور تربیت کا حق دیا۔ حضور پاکﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دو بچیوں کی پرورش کرے، انہیں اچھی تربیت دے اورپھر ان کی شادی کردے، اس کے لیے جنت یقینی ہوگئی۔ اسی طرح نکاح کے مرحلے میں اس کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اسی مرحلے میں اسے مہر کا حق دیا گیا ہے۔ مہر کا حق ایک معاشی آزادی کا نمائندہ حق ہے جب کہ میراث میں حصہ دے کر اسلام نے عورت کو مکمل معاشی آزادی دی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زندگی کے مختلف مراحل بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں بھی اس کے حقوق کا تحفظ اور اس کی عظمت و کرامت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ بہ حیثیت بیٹی وہ محفوظ اور محترم ہے، بہ حیثیت بہن اور بیوی وہ عزت و احترام کی حق دا رہے اور بہ حیثیت ماں وہ جنت ہے۔ احادیث میں ان تمام کی وضاحت موجود ہے۔ دیکھئے:
ماں کی نگہبانی و خیال
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور اس نے دریافت کیا کہ میرے حسن اخلاق اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تمہاری ماں، اس نے کہا پھر کون؟ آپ نے فرمایا کہ تمہاری ماں، اس نے کہا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں، اس نے کہا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری باپ۔ (بخاری و مسلم)
بہن کی نگہبانی و خیال
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے جو شخص بھی تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی کفالت کرے گا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ اختیار کرے گا تو وہ لڑکیاں یا بہنیں اس کو جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ بنیں گی۔ (بیہقی)
بیوی کی نگہبانی و خیال
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی میری نصیحت کو قبول کرو…‘‘ (بخاری و مسلم)
اس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ تم میں سب سے اچھا شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے زیادہ اچھا ہوں۔ (ابن ماجہ)
بیٹی کی نگہبانی و خیال
حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی اہلیہ حضرت عائشہؓ نے ان سے کہا میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں تھیں، وہ کچھ مانگ رہی تھیں، میرے پاس صرف ایک کھجور تھی جو میں نے اس کو دے دی، اس نے کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور ایک ایک دونوں بیٹیوں کو دے دیا، پھر وہ کھڑی ہوئی اور چلی گئی، اس کے بعد نبی کریمﷺ گھر آئے، میں نے ان سے یہ واقعہ سنایا تو آپؐ نے کہا کہ جو شخص بھی لڑکیوں کے ذریعے آزمایا جائے پھر وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ ہوں گی۔ (بخاری)
حضرت انسؓ بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بھی دو لڑکیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ اس طرح ہوں گے اور آپﷺ نے اپنی انگلیوں کو ملا لیا۔ (مسلم)
باندی کی نگہبانی و خیال
حضرت ابو ہریرہؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس بھی کوئی باندی ہو پھر وہ اس کو اچھی طرح سے تعلیم دے اور اچھی طرح سے ادب و سلیقہ سکھائے، اس کے بعد اسے آزاد کردے اور پھر اس سے شادی کرلے تو اس کو دو اجر ملے گا۔ (بخاری)
لیکن حقوق کی اس بحث میں ہم فرائض کو نظر انداز نہ کر دیں… اس لیے کہ حقوق و فرائض کے درمیان توازن اور دونوں کی بہتر ادائگی سے ہی ایک مضبوط معاشرہ قائم بھی ہوتا اور باقی بھی رہتا ہے۔ اسلام نے جہاں خواتین کے حقوق پر مفصل بحث کی ہے وہیں حقوق کی ادائیگی اور فرائض و ذمہ داریوں پر بھی زور دیا ہے اور جنت کا حصول فرائض کی ادائگی سے مربوط کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک حقوق اور فرائض کا پختہ شعور نہ ہو اس وقت تک معاشرہ کو سکون حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کے وہ نتائج ہمارے سامنے آسکتے ہیں جو مطلوب اور مقصود ہیں۔ ذیل میں ہم کچھ فرائض اور ذمہ داریوں کا تذکرہ کریں گے جو ایک عورت پر بہ حیثیت عورت اور زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف حیثیتوں میں اس پر عائد ہوتے ہیں۔
بہ حیثیت مسلم ہر عورت کا سب سے پہلا فرض اور بنیادی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری ہے۔ یہ فرض اتنا اولین اور بڑا ہے کہ اس کے سامنے دوسرے تمام فرائض اور ذمہ داریاں معمولی اور قابل ترجیح ہیں۔ ماں، باپ، بہن، بھائی اور شوہروں کی اطاعت اسی حد تک لازم ہے جب وہ اللہ کی اطاعت و فرماں برداری سے متصادم یا اس کے خلاف نہ ہو۔ اللہ کی اطاعت ایک ہمہ گیر ذمہ داری ہے اور وہ ہماری پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ لیکن ایک خاص پہلو خواتین کی ذمہ داری کا اور ہے اور وہ ہے ’’دعوت دین میں خواتین کی ذمہ داری‘‘ کا۔ قرآن پاک میں اس ذمہ داری کو خاص طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں۔ وہ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔‘‘ گویا بہ حیثیت مسلمان ایک عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوت دین کی ذمہ داری خاص طور پر ادا کرے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ مومن خواتین کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں، اور اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ مومن خواتین وہ صفات اپنی زندگیوں میں پیدا کریں یہ بھی ان کے فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مراحل حیات میں اس کی ذمہ داریوں کا تذکرہ اس طرح ہے۔
۱- بہ حیثیت بیٹی:
سن شعور کو پہنچنے کی صورت میں جب سے انسان اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہوتا ہے ایک لڑکی کی بھی وہی ذمہ داریاں ہیں، جو ایک لڑکے کی ہیں۔ والدین کی اطاعت و فرماں برداری، والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک او رخدمت کرنا۔ اسی طرح علم کا حصول ہر مسلمان مردو خاتون کی ذمہ داری ہے، ا س لیے ایک لڑکی پر بھی فرض ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور علوم و فنون میں مہارت حاصل کرتے ہوئے قوم و ملت اور دین کی خدمت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرے۔
بہ حیثیت بیٹی اس کے اندر یہ شعور بیدار رہنا چاہیے کہ جہاں وہ اپنے گھر اور خاندان کے لیے کچھ ذمہ داریوں کے لیے پابند ہے وہیں ملک اور ملت کے لیے بھی اس پر کچھ ذمہ داریاں ہیں، او ران کی ادائگی بھی اسے کرنی ہے۔
۲- بہ حیثیت بیوی
ایک لڑکی کی عملی زندگی کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے اور میاں بیوی کے رشتہ کا قیام سماجی زندگی کی شروعات کرتا اور ایک لڑکی پر مختلف النوع ذمہ داریاں ڈالتا ہے۔ ان ذمہ داریوں میں سماجی اور معاشرتی ذمہ داریاں بھی ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ سیاسی اور معاشرتی ذمہ داریوں میں وہ ذمہ داریاں شامل ہیں جو رشتے ناطوں کے سبب عرف عام میں رائج تصور کی جاتی ہیں مگر ان کے علاوہ کچھ وہ ذمہ داریاں ہیں جن کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول نے خاص تاکید فرمائی ہے۔
الف: شوہر کی اطاعت: شوہر کی اطاعت و فرماں برداری وہ ذمہ داری ہے جس کی رسولِ پاکؐ نے بڑی تاکید فرمائی ہے۔ ایک مرتبہ رسول پاکؐ سے پوچھا گیا کہ اچھی بیوی کون ہے؟ آپؐ نے جواب دیا کہ جب شوہر اسے دیکھے تو وہ خوش کردے اور جب وہ کسی کام کو کہے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنے بارے میں اور اپنے مال کے بارے میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کرے جو شوہر کو ناپسند ہو۔‘‘
ب: مال و اولاد کی حفاظت: بہ حیثیت بیوی عورت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر کا مال اور اس کے گھر کی محافظ رہے اور اسی طرح شوہر کی غیر موجودگی میں اپنے وقار اور اپنی عفت کی حفاظت کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا تاکیدی حکم ہے، جو ہر عورت کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اولاد کی تربیت و نگرانی بھی اس کا اہم ترین فرض ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
’’… اور عورت نگراں ہے شوہر کے گھر اور بچوں کی۔ اور تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا، جو اس کے ذمہ تھے۔‘‘
ج: شکر گزاری: اللہ کے رسول نے اس بات کی بڑی تاکید کی ہے کہ بیوی شوہر کی شکر گزار رہے اور ناشکری کے جذبات کو قریب نہ آنے دے۔ حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی تھیں کہ حضورؐ ادھر سے گزرے۔ آپؐ نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا کہ ’’تم اچھا سلوک کرنے والے شوہروں کی ناشکری سے بچنا، پھر فرمایا، عورتوں میں کسی کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے گھر لمبے عرصے بیٹھی رہتی ہے پھر اللہ اسے شوہر دے دیتا ہے اور پھر اسے اولاد یتا ہے، پھر وہ کسی بات پر غصہ ہو جاتی ہے اور شوہر سے کہتی ہے کہ مجھ کو تجھ سے کبھی آرام نہیں ملا، تونے میرے ساتھ کبھی اچھا سلوک نہیں کیا۔ ان امو رکے علاوہ بہ حیثیت بیوی ایک عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ امور خانہ میں مہارت اور احسان کی عادی ہو۔ گھریلو امور کی انجام دہی میں اسے مہارت ہو اور وہ زندگی کے مختلف امور میں ازدواجی فرائض و واجبات کا پورا شعور رکھتی اور ادائگی کی کوشش کرتی ہو۔ ازدواجی زندگی میں میاںبیوی ایک دوسرے کے ناقابل بیان حد تک قریب ہوتے ہیں۔ اس قربت کا تقاضہ یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں ہی ایک دوسرے کے اشاروں کی زبان سمجھنا سیکھ لیں اور فرائض و واجبات سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کی خوشی و مسرت کو اپنا ہدف بنائیں۔
۳- بہ حیثیت ماں
بہ حیثیت ماں ایک عورت کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اولاد کا بہترین نام رکھے اور لڑکے اور لڑکی کے درمیان کسی بھی تفریق کے بجائے دونوں کو عطیہ خداوندی تصور کرتے ہوئے پرورش و پرداخت میں پوری ذمہ داری کے ساتھ لگ جائے۔ ہر مسلم ماں کو معلوم ہونا چاہیے کہ نیک اولاد ان کے لیے صدقہ جاریہ اور موت کے بعد بھی نیکیوں میں اضافہ کا ذریعہ ہوگی اس لیے بہ حیثیت ماں اچھی تربیت، صالح عادات و اطوار اور نیک خیالات کی پرورش اولاد کے اندر ہونی چاہیے۔
اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ والدین اپنی اولاد کو جو کچھ دیتے ہیں ان میں سب سے بہترین عطیہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تاکید کے علاوہ ہر عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کی ذہنی و جسمانی صحت اور ان کی مادی روحانی ضروریات کی تکمیل کرے۔ ان کی صحت و تن درستی کے لیے ممکنہ انتظامات کرنے کے ساتھ ان کے اندر نفع نقصان اور خیر و شر کی تمیز اور اس کا واضح تصور پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ ماں کا رول بچے کی زندگی میں ایک درس گاہ کا ہوتا ہے اور ماں کی گود میں ہی شخصیت بنتی ہے۔ اس لیے ایک ماں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کی ہمہ جہت تربیت کے لیے ہمیشہ جدوجہد کرتی رہے کیوں کہ یہ اس کی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے خیر کا ذریعہ ہوگی۔