مرے ہاتھ میں عشق کا ساز دے کر
تمہیں چھپ گئے ایک آواز دے کر
یہ کیوں کر دیا پتھروں کے حوالے
مجھے فطرتِ آئینہ ساز دے کر
یہ کس نے اٹھا کر قلم رکھ دیا ہے
کہانی کو اک حرفِ آغاز دے کر
ہوا میں بھٹکتے پھریں اب پرندے
زمیں ہٹ گئی، زعمِ پرواز دے کر
سفر پر نکلنا ہے جس کو وہ جاگے
ٹھہرتا نہیں وقت، آواز دے کر
غزل سادہ کاغذ پہ آنسو لکھے گی
چلا جاؤں گا اپنا انداز دے کر
نہ جانے کہاں اڑ گئی عمر قیصرؔ
کھڑا ہوں بیاباں میں آواز دے کر