۱- مسلم سماج میں پھیلی مغربی تہذیب کے اثرات کی روک تھام کے لیے سماجی و معاشرتی سطح پر کیا کیا جائے؟
جواب: یہ حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے میں مغربی تہذیب کے اثرات بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ ٹی وی سیریل اور فحش فیشن کے ذریعے نوجوان مرد و خواتین کے اندر زہر انڈیلا جا رہا ہے۔ گھریلو خواتین اس اسٹوری کو حقیقی سمجھ کر اپنی زندگیوں میں زہر گھول رہی ہیں۔ اور بڑے فخر کے ساتھ اس کو اپنا رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دین کے علم کی کمی ہے۔ خصوصاً قرآن و حدیث سے دوری، آخرت پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کی کمی ہے۔ ایسے حالات میں ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کریں، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور سلم ایریاز کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے طبقے میں بھی ہفتہ واری اجتماعات کے ذریعے لوگوں کو قرآن و حدیث سے قریب کرنے کی کوشش کریں۔ ایسی کلاسیز شروع کریں جہاں قرآن مجید کا ترجمہ مع تفسیر یا ایک سالہ عالمہ کورس کے ذریعے قرآن و حدیث کی تعلیم دی جائے، جب لوگ خود قرآن مجید کے قریب ہوں گے اور اس کو سمجھیں گے تو عمل کی راہین آسان ہوجائیں گی اور یہی لوگ دعوت کے کام میں ہمارے مددگار بنیں گے۔
ایسے حالات میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہم کو انجام دینا ہوگا ورنہ ہمارا بھی احتساب کیا جائے گا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کتنے حکیمانہ انداز میں فرمایا ’’اس شخص سے اچھی بات اور کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
’’اے ایمان والو بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘
یہ حکم ہمیں دیا گیا ہے اور اللہ کا حکم فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ ساتھ میں اس کام کرنے والوں کو سراہا گیا کہ ان کے کام کو اللہ رب العالمین پسند کرتا ہے کہ اس شخص سے اچھی بات اور کسی کی ہو ہی نہیں سکتی جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے۔ پتہ چلا سب سے پہلا ٹارگیٹ اور سب سے پہلا ہدف ہماری اپنی ذات ہے۔ عمل کر کے یہ واضح کرے کہ میں فرماں بردار بندہ یا بندی ہوں اپنے رب کی۔
۲- مسلم معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے اس سلسلے میں کیا کیا جانا چاہیے؟
جواب: مسلم معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں۔
۱- لڑکے اور لڑکیوں کی قرآن و حدیث سے دوری ہے۔ جہاں یہ رشتہ محبت و اخوت کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے سودے بازیوں کی وجہ سے نفرتوں کو جنم دے رہا ہے۔ کہیں لڑکی والوں کو بلی کا بکرا بننا پڑتا ہے تو کہیں لڑکی سسرال والوں کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیتی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں دو خاندانوں کا سکون و اطمینان غارت ہو جاتا ہے۔ جن گھرانوں میں لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اس گھر کے لڑکے اپنی بیویوں کو بھی حقیقی درجہ دینے کے لیے تیار نہیں رہتے۔ اگر ان بچوں پر بچپن میں دین کا علم سیکھنے پر توجہ دی جاتی تو وہ ضرور بڑے ہوکر بڑوں کے فیصلے سے پہلے اپنے گھر کو قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کرتے۔
یہ کوشش کرنی ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو مدرسہ ضرور بھیجیں ساتھ ہی محلے پڑوس کے بچوں پر توجہ ضرور دیں، ان کو مدرسے کی اہمیت کا احساس دلائیں یا خود پڑھائیں اور ان کا ایمان اتنا پختہ کر دیں کہ وہ ہر کام میں بڑے ہوکر اولیت قرآن و حدیث کو دیں۔ انگلش میڈیم والے بچوں کو ان کے حساب سے ٹائم دیں۔ ہمیں آج بچوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی کیوںکہ آج کے بچے کل کے معمار ہوں گے۔ اور ہمارے لیے ثوابِ جاریہ بھی بنیں گے۔
تیسری وجہ صبر و قناعت کی کمی ہے۔ خواتین کی بے جا خواہشات کی وجہ سے حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایثار و قربانی کا جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ ہر ایک اپنے فائدے کی سوچ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح جیسے مقدس رشتے کا تقدس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں ماں باپ اپنی بیٹی یا بیٹے کو صحیح راہ دکھائیں۔ دوسرے کی بچی کو اپنی بچی سمجھیں۔ درگزر سے کام لیں اور ایک دوسرے سے بے انتہا امیدیں وابستہ نہ کریں انشاء اللہ ماحول میں تبدیلی آئے گی۔
۳- جاہلانہ رسم و رواج کے خاتمے کے لیے خواتین کیا کرسکتی ہیں؟
جواب: یہ صحیح ہے کہ غیر شرعی اور غلط رسم و رواج خواتین ہی کے ذریعے معاشرے میں انجام پاتے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کے اندر یہ رجحان ہے کہ اسلام کے پانچ ارکان کو ہی قرآن و سنت کے مطابق انجام دینا چاہیے۔ باقی تمام زندگی میں اختیار ہے جیسی گزاریں۔ حالاں کہ زندگی کے ہر شعبہ کو شریعت اسلامی کے مطابق انجام دینا چاہیے۔ مثلاً اگر نکاح کی سنت ادا کرنا ہے تو شریعت میں صرف یہ کہا گیا کہ ایک ولی اور دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو جائے گا جب کہ معاشرے میں بے جا رسومات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ پیسوں کا بھی ضیاع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے فکر مند ہیں۔ دوسری لعنت جہیز کی ہے۔ اگر ہر ماں اور ہر نانی دادی یہ عہد کریں کہ ہمارے بیٹوں اور پوتوں کی شادی ہم بغیر جہیز لیے کریں گے تو یہ رسم ختم ہوسکتی ہے۔
اس طرح معاشرے کی غلط رسوم کو ختم کرنے کے لیے پہل ہمیں کرنا ہوگی۔ چاہے نکاح ہو یا طلاق کا معاملہ ہو، بچے کی پیدائش ہو یا میت کی تدفین کا معاملہ ہو ہمارے معاملات لین دین، معیشت و معاشرت غرض ہر شعبہ میں کام کو انجام دیتے وقت پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ قرآن مجید میں اس کے بارے میں کیا حکم ہے۔ حضورؐ نے اس کو کس طرح کیا یا کس طرح انجام دینے کا حکم دیا۔ اگر کوئی چیز نہیں ملتی تو صحابہ کرام کی طرف رجوع کریںکہ صحابہ کرام نے اس کام کو کیسے انجام دیا۔ ان فتنوں سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا۔ اس طرح ہمیں دعوت الی اللہ کے ذریعے ان باتوں کو عام کرنا ہوگا اور سب کا رخ اسلام اور ایمان کی طرف موڑنا ہوگا۔ اگر ہم اس فریضے کو اچھی طرح ادا کریں تو انشاء اللہ جلد ہی نئی صبح آئے گی۔lll