میری بات پر یقین کرلو، فائدے میں رہوگے۔ چرخ نیلی فام تلے مجھ سے بڑھ کر تمھارا خیر خواہ اور بھلا چاہنے والا کوئی نہیں!‘‘
’’بالکل غلط! سراسر جھوٹ۔ تم میرے دوست اور خیر خواہ کس طرح ہوسکتے ہو؟ تم تو صرف نقاد ہو نقاد! اور وہ بھی بدخواہی سے میری ذات پر تنقید کرنے والے، جس کام میں میرا فائدہ ہوتا ہے تم اسے نقصان کا بیوپار بتاتے ہو اور جن باتوں میں بغیر کسی کوشش کے نقصان نظر آتا ہے بیش بہا فوائد کی نوید سناتے ہو۔ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے میں نے میر صاحب کو اپنی فرم کا جنرل منیجر مقرر کیا تو تم نے سخت مخالفت کی، اس شریف آدمی کی ذات میں ہزاروں عیب نکال ڈالے اور مجھے ڈرایا کہ اگر تم نے اپنا کاروبار اس شخص کے حوالے کر دیا تو یہ تمہیں تباہ کردے گا۔ جانتے ہو محترم میر صاحب کی لیاقت، محنت اور سچی خیر خواہی سے صرف ڈیڑھ ماہ میں مجھے کتنا نفع حاصل ہوا ہے؟ پورے پانچ لاکھ روپے، نہر پر پل بنوانے کا ٹھیکہ انہی کی محنت اور بھاگ دوڑ سے ملا۔ عدالت عالیہ کے دفاتر میں اسٹیشنری سپلائی کرنے کا کام انہی کی وجہ سے حاصل ہوا۔ اگر میں تمہاری بات مان لیتا تو ایک ایسے معاون کی خدمات سے محروم ہوجاتا جو اپنے اعلیٰ اوصاف میں کوہ نور کی طرح ہے۔‘‘
’’میرے بھولے بھائی! تم نے اپنے میر صاحب کی معرفت حاصل ہونے والے نفع کی تفصیل تو بتا دی لیکن کیا اس نقصان پر بھی غور کیا ہے، جو ان بہت قابل محنتی اور سچے خیر خواہ نے تمہیں پہنچایا ہے۔‘‘
’’بڑی مہربانی! خاص عنایت لیکن مجھے آپ کی مبارک یا نامبارک زبان سے اس سچائی کے مقابلے میں کچھ نہیں سننا کہ پل بنوانے کے لیے ٹھیکے میں جو بچت ہوئی تھی وہ میرے بنک اکاؤنٹ میں جمع ہوچکی ہے اور اسٹیشنری سپلائی کرنے کا نفع ماہ بہ ماہ میری مٹھی میں آجاتا ہے۔ یہ منافع اضافی ہے کہ جن دکانداروں اور پریس والوں سے میرے کارندے مال لیتے اور کام کرواتے ہیں وہ مجھے باقاعدگی سے کمیشن دیتے ہیں۔ کارپوریشن کے خزانے سے جو مال میرے حصے میں آئے گا وہ الگ۔ فرمائیے! یہ میر صاحب قبلہ کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے یا نہیں؟‘‘
’’تمہارے نقظہ نظر سے بے شک یہ معاملہ یونہی ہے ۔ لیکن …‘‘
’’بس بس! میں لیکن ویکن کو اہمیت نہیں دیتا۔ مہربانی فرما کر آپ یہاں سے تشریف لے جائیے اور پھر کبھی قدم رنجہ فرمانے کی زحمت نہ اٹھائیے!‘‘
’’تم میری بات سن لیتے تو کچھ فائدہ ہی پہنچتا۔‘‘
’’جانتا ہوں مجھے کیا فائدہ پہنچتا۔ میں اچھی طرح جان گیا ہوں کہ تمہاری اصل حیثیت کیا ہے۔ تم بالیقین میرے دشمنوں کے گماشتے ہو، جنہیں میری ترقی اور خوش حالی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔‘‘
’’اچھا، تمہاری مرضی!‘‘
٭٭
’’تم پھر آگئے! میرا کون دشمن ہے جو تمہیں میرے پاس بھیج دیتا ہے۔ کاروباری بک بک سے جب بھی فرصحت کے دو لمحے میسر آتے ہیں تم عذاب بن کرنازل ہو جاتے ہو۔ کہو اب کس غرض سے تشریف آوری ہوئی۔‘‘
’’وہی تمہاری خیر خواہی کا مرض۔ برادرِ عزیز یقین کرو میرے یہاں آنے کی غرض اس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ تمہیں ان نقصانات سے آگاہ کروں جو تم نفع سمجھ کر سمیٹ رہے ہو۔‘‘
’’مثلا!‘‘
’’مثلاً پلازہ بنانے کا تمہارا نیا منصوبہ۔‘‘
’’کیا اس میں بھی کوئی بھاری نقصان ہونے والا ہے؟‘‘
’’ایسا نقصان جس کی تم تلافی نہیں کرسکوگے۔‘‘
’’نقصان تو تم مجھے بعد میں بتانا، پہلے اس نفع کی تفصیل سن لو جو مجھے یقینی طور پر حاصل ہوگا یا ہوچکا ہے۔ جس زمین پر میں یہ پلازہ تعمیر کروا رہا ہوں اس کی قیمت زمین کے موجودہ نرخ کے حساب سے دو کروڑ روپے ہے، لیکن میرے لائق فائق منیجر نے بالکل مفت دلوا دی ہے۔
’’کیا واقعی۔‘‘
’’جی صاحب واقعی۔ بس ایک جھوٹا مقدمہ دائر کرنا پڑا اس کے بے وسیلہ وارثوں پر، آگے کی ساری کارروائی رشوت اور دھونس دھاندلی سے ہوئی۔ مقدمے کا فیصلہ میرے حق میں ہوا اور میں اس زمین کا بلا شرکت غیرے مالک بن گیا۔‘‘
’’انا للہ و انا الیہ راجعون۔‘‘
’’اچھا، اچھا قرآن کی آیتیں بعد میں پڑھنا پہلے اس نفع کی تھوڑی کی تفصیل اور سن لو جسے تم میرا نقصان بتانے کے لیے تشریف لائے ہو۔‘‘
’’سناؤ.‘‘
’’نمبر ایک: پارکنگ کی جگہ چھوڑے بغیر پوری زمین پر پلازہ بنانے کی اجازت حاصل کرلی۔ نقشہ میری میز کی دراز میں ہے، کہو تو دکھاؤں؟‘‘
’’نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ تم اپنی بات جاری رکھو۔‘‘
’’نمبر دو: اس پلازہ میں جتنے دفاتر، رہائشی فلیٹ اور دکانیں بنیں گی ان کی پیشگی قیمت معقول نفع کے ساتھ میری جیب میں آچکی ہے۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ بکنگ کرلی ہے۔‘‘
’’ماننا پڑتا ہے کہ شیطانی فراست سے تمہیں وافر حصہ ملا ہے۔‘‘
’’تم جیسے ناکام لوگ اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں ناصح صاحب! اس دنیا کو میری نظروں سے دیکھو تو اندازہ ہوگا کہ کامیابی اس فراست کے صدقے ہی حاصل ہوتی ہے، جسے تم شیطانی فراست کہتے ہو۔ دین اور اخلاق کی درس دینے والے کئی درجن حضرات کے نام پتے میرے رجسٹر میں درج ہیں جو امداد لینے کے لیے ماہ بہ ماہ حاضری دیتے اور چند نوٹ وصول کر کے دعاؤں کے انبار لگا دیتے ہیں۔ ان کے مدرسے اور مسجدیں ہم جیسے ذہین لوگوں کی امداد ہی سے بارونق ہیں۔
’’آدمی اپنے مقام سے گر جائے تو اس کا یہی جال ہوتا ہے۔
’’کیا پوری دنیا کے انسان اپنے مقام سے گر گئے ہیں؟ تمہارے فلسفے پر ایمان رکھنے والے تو بس دو چار ہی ہوں گے۔‘‘
’’سچائی اور جھوٹ کے تقابل میں تعداد بے معنی ہوتی ہے۔‘‘
’’تم ایسا ہی سمجھتے رہو لیکن ایسا ہے نہیں۔ دنیا کی گاڑی روپیوں کے پہیوں ہی پر چل رہی ہے اور روپے اسی فراست سے حاصل ہوتا ہے، جسے تم شیطانی قرار دے رہے ہو۔
جانتے ہو میرا اگلا منصوبہ کیا ہے؟ یہ پلازہ مکمل کرنے کے بعد میں ایسے ہی کئی اور پلازے اور بلڈنگیں بنواؤں گا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘‘
’’لیکن کب تک؟‘‘
’’اچھا مہربانی کر کے تم دفع ہوجاؤ یہاں سے، عذاب ثواب کی باتیں کرکے لوگوں کے حوصلے پست کرنے کے سوا تم جیسے لوگوں کو آتا ہی کیا ہے؟‘‘
’’ماشاء اللہ پہلے سے زیادہ مہذب ہوگئے ہو۔ گفتگو کا انداز ہی بدل گیا ہے۔‘‘
’’تم جیسے لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا آخری طریقہ یہی ہے۔ تم جاتے ہو یا ملازم کو حکم دوں کہ وہ دھکے دے کر تمہیں یہاں سے نکال دے۔‘‘
’’اس کی ضرورت نہیں، میرا فرض پورا ہوگیا، میں جا رہا ہوں۔‘‘
٭٭
خدا کی پناہ! تم یہاں بھی پہنچ گئے؟‘‘
’’یہ میری مجبوری ہے عزیز بھائی! تمہارا سچا خیر خواہ ہوں نا۔ کب سے بیمار ہو؟‘‘
’’لگتا ہے ہمیشہ سے یہی حالت تھی۔ سکھ کے سانس نایاب ہوگئے ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’کہتے ہیں آخری علاج آپریشن ہے۔ کینسر نے جگر کے جتنے حصے کو خراب کر دیا ہے کاٹ کر نکالا جائے گا اور ادھر میں اس تصور ہی سے نیم مردہ ہو رہا ہوں کہ میرا زندہ وجود چیرا پھاڑا جائے گا۔ بہرحال تم بتاؤ، آج یہاں کس غرض کے لیے آئے، کیا میری بیچارگی کا مذاق اڑانے کے لیے؟‘‘
’’نہیں! میرے آج آنے کا مقصد بھی وہی تمہاری خیر خواہی ہے۔ امید ہے آج تم میری چند باتیں ضرور سنوگے؟‘‘
’’اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو میں سننے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
’’کاش تمہارا یہی رویہ اس وقت ہو۔‘‘جب میں پہلی بار تم سے ملا تھا۔‘‘
’’ہاں! میں بھی یہی محسوس کر رہا ہوں۔ تمہیں بات کرنے کا موقع ضرور ملنا چاہیے تھا۔ شاید تم کوئی ایسی بات کہتے کہ میں اس انجام سے بچ جاتا۔‘‘
’’اس انجام سے بچنا یا بچانا تو کسی کے بھی بس میں نہیں۔ شجر اور حجر سمیت کل مخلوق کا آغاز و انجام ایک جیسا ہی ہے البتہ اس انجام کو اچھا یا برا بنانا کم از کم ہم انسانوں کے بس میں ضرور ہے اور میری خواہش تھی کہ تم برے انجام سے بچ جاؤ۔‘‘
’’کیا یہ ممکن تھا؟‘‘
’’بالکل ممکن تھا۔ جو عمر تم نے غلط رستوں پر چل کر گزاری، بھلائی کی راہ پر بسر کرتے تو تمہارا یہ حشر نہ ہوتا۔ نہ تمہارا وہ مال تمہیں فائدہ پہنچا رہا ہے جو تم نے بہت ظلم اور کئی بے ایمانیاں کر کے جمع کیا ہے اور نہ تمہاری وہ اولاد تمہیں کچھ سکھ پہنچا رہی ہے، جس کا مستقبل سنوارنے کے لیے تم نے حق ناحق کا فرق بھلا دیا اور نہ تمہاری وہ فراست تمہیں کوئی راہ سجھا رہی ہے، جس پر تمہیں بہت ناز تھا۔‘‘
’’اگر صرف اتنی بات ہوتی کہ میں اپنی املاک اور اولاد سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا تو پھر بھی صبر کرسکتا تھا لیکن عذاب تو یہ ہے کہ، یہ سب چیزیں مجھے صدمہ پہنچا رہی ہیں، میری تکلیف زیادہ کر رہی ہیں۔ مجھے معلوم ہے اس وقت میرے بچوں اور میری بیوی کی سب سے بڑی خواہش میری موت کی خبر سننے کی ہے۔ وہ میرے پاس آتے ہیں تو ہاتھ اٹھا اٹھا کر اور اپنی آوازوں کو رقت آمیز بنابنا کر میرے تندرست ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن میں سمجھ رہا ہوں کہ یہ سب ان کی اداکاری ہے اور اس منافقت سے میرا دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔
رہیں میری املاک تو وہ میرے لیے پھانسی کا پھندہ اور بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے بن گئی ہیں۔ میں اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرتا ہوں کہ میں نے کسی کا حق غصب نہیں کیا، کسی کو دھوکہ نہیں دیا، کسی نوعیت کی جعلسازی نہ کی لیکن یہ پلازہ یہ بلڈنگیں اور فیکٹریاں میرے گناہوں کے ثبوت بن کر میرے سامنے کھڑی ہیں۔ میں جتنا انہیں بھلانے کی کوشش کرتا ہوں، اتنی ہی ان کی چبھن گہری اور تیکھی ہوتی جاتی ہے۔ یہ احساس مجھے ہلاک کیے دے رہا ہے کہ یہ سب کچھ میرا ہے، ان سب کا خالق میں ہوں لیکن اب یہ میری ملکیت نہیں ہیں۔ میں ان میں سے کسی چیز کو اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا۔ یہ سب میرے ان وارثوں کی ملکیت ہیں جو میرے مرنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔‘‘
وہ اپنی بات جاری رکھنا چاہتا تھا لیکن شدت گریہ سے اس کی آواز حلق میں پھنس گئی۔
’’تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو اور بالکل درست تجزیہ کیا ہے۔ تمہاری حالت واقعی قابل رحم اور عبرت ناک ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ کوئی تدبیر ایسی سوجھ جائے جس سے تمہارا یہ عذاب ہلکا ہوجائے۔‘‘
’’کیا ایسی کوئی تدبیر ہے؟‘‘
’’ایک تدبیر ہے تو سہی اور وہ یہ کہ تم اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرو۔ انسان اپنے آپ کو کیسا بھی خراب کرلے توبہ کر کے اپنے گناہ معاف کروانے کے حق سے محروم نہیں ہوتا۔ اس کا یہ حق اس وقت ساقط ہوتا ہے، جب موت کے آثار ظاہر ہوجائیں اور ابھی تمہاری موت کے آثار ظاہر نہیں ہوئے، توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔‘‘
’’اور توبہ کا طریقہ کیا ہے؟ بچپن میں دین کے کچھ مسائل مجھے سکھائے تو گئے تھے لیکن اب ذہن سے اتر گئے ہیں۔‘‘
’’بالکل آسان طریقہ ہے۔ خود کو خطار کار مان کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو، آیندہ گناہ نہ کرنے کا پکا عہد باندھو اور جن لوگوں کا حق مارا ہے ان کا حق ادا کردو!‘‘
’’پھر تو میں خالی ہاتھ رہ جاؤں گا۔ میرے پاس جو کچھ ہے وہ سب کچھ دوسروں ہی کا تو ہے۔‘‘
’’احمق! خالی ہاتھ تو تم اب بھی ہو۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ تمہارے پلازے، بلڈنگیں اور کارخانے دوسروں کے قبضے میں ہیں۔ تمہیں تو بس یہ بتا دیا جاتا ہے کہ اس ماہ کرائے اور ٹھیکوں کی مد میں اتنا روپیہ اکٹھا ہوا اور وہ سارا روپیہ بینکوں میں جمع کرا دیا جاتا ہے۔ تمہارے حصے میں کیا آتا ہے، ایک کرسی، ایک پلنگ اور وہ معمولی خوراک جو ڈاکٹر تجویز کردے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ اتنے بڑے اسپتال میں صرف ایک کمرہ تمہاری تحویل میں ہے اور اس میں بھی تم صرف ایک پلنگ پر لیٹے ہوئے ہو؟ یقین کرو تمہاری پوری زندگی اسی طرح بسر ہوئی ہے۔ تم نے جو کچھ بنایا اور کمایا اس سے دوسرے فائدے اٹھاتے رہے۔ ہاں گناہوں کی وہ بھاری گٹھڑی بلا شرکت غیرے تمہاری کمر پر رکھی گئی جو بداعمالیوں کے نتیجے میں بھاری سے بھاری ہوتی چلی گئی۔ شاید تم ابھی تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ ڈاکٹر تمہیں بچالیں گے اور آپریشن کے بعد تم پھر معمول کی زندگی گزارنے کے قابل ہوجاؤگے۔ میں مان لیتا ہوں کہ ایسا ہوسکتا ہے لیکن تم ایک اور ایسی بیماری کے مریض بھی ہو جس کا کوئی علاج ہی نہیں۔‘‘
’’وہ کون سی بیماری ہے؟‘‘
’’وہ بیماری ہے موت۔ بتاؤ کیا اس بیماری کا کوئی علاج ہے؟ یاد کرو تمہارے اجداد میں بیسیوں افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ تمہارا، میرا، زید، بکر، عمر سب کا انجام یہی ہے۔ موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ طاقت کا ہر پجاری یہی سوچتا ہے کہ لوگ اپنی حماقتوں کے نتیجے میں مرے ہیں، اس کی زندگی کو کچھ خطرہ نہیں لیکن اس کی یہ غلط فہمی دور ہوکر رہتی ہے۔ طاقتور سے طاقت ور پہرے داروں کی موجودگی میں موت کا فرشتہ آتا ہے اور وہ مقررہ مہلت سے زیادہ ایک سانس بھی نہیں لے پاتا۔‘‘
’’اچھا، اچھا تو مجھے زیادہ خوف زدہ نہ کر، میں نے پہلی ملاقات ہی میں سمجھ لیا تھا کہ تو میرا دوست نہیں بدترین دشمن ہے۔ اپنی یہ بک بک بند کر اور یہاں سے چلا جا!‘‘
’’نادان! میں تو تیرا سچا دوست ہوں۔ کاش تو یہ بات جان لیتا، لیکن تو نے تو غلط فہمی کی پٹی آنکھوں پر باندھے رکھی اور کبھی مجھ سے میرا نام تک نہ پوچھا، بتاؤں تجھے اپنا نام؟‘‘
’’اس آخری جملے پر اس نے چونک کر مخاطب کی طرح دیکھا اور کہنا چاہا، اچھا اب بتا دے مجھے اپنا نام۔‘‘
لیکن موت کی ہچکی نے یہ کہنے کی مہلت نہ دی، اس کی گردن ڈھلک گئی اور الفاظ اس کے منہ ہی میں بند رہ گئے۔lll