خالد آج بچوں سمیت اپنے دوست زبیر کے ہاں رات کے کھانے پر مدعو تھے۔ چونکہ آج پہلی با ران کے ہاں جا رہے تھے اس لیے تیاری بھی خاص اہتمام سے کی جا رہی تھی۔ ان کے بیٹے اسد اور سلیمان تیار ہوتے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ بیٹی بینش نے کپڑوں کا ڈھیر الماری سے نکال کر پلنگ پر رکھا اور اپنے اور اپنی ماں کے لیے کپڑوں کا انتخاب کرنے لگی۔
اس نے ماں سے پوچھا: ’’امی! آپ کون سا جوڑا پہن کر جائیں گی؟‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بتاتیں، اسد کہنے لگا ’’وہ جوڑا پہن لو جو خالہ کی شادی پر بنایا تھا۔‘‘
بینش بولی ’’وہ تو بہت مہنگا ہے۔ کوئی شادی تھوڑی ہے جو ایسا قیمتی جوڑا پہنا جائے۔ ایسا کامدار سوٹ تو شادیوں پر پہنتے ہیں۔‘‘ پھر بینش نے ایک جالی دار سوٹ نکالا اور کہنے لگی ’’امی! یہ دیکھیں، یہ بھی بہت قیمتی ہے۔ یہ پہن لیں… مگر ابھی اسے بھی رہنے دیں اب یہ بہت عام ہوگیا ہے، جس تقریب میں جاؤکسی نہ کسی نے ایسا ہی جوڑا پہنا ہوتا ہے۔‘‘
اس نے پھر ایک ہلکے بادامی رنگ کا سوٹ نکالا اور بولی: ’’یہ بھی اچھا ہے، یہ پہن لیں۔‘‘
ماں نے کنگھی کرتے کرتے مڑ کر دیکھا تو کہا: ’’اے ہے … زہر لگتا ہے مجھے یہ رنگ، اس رنگ کا جوڑا پہن کر عمرمیں بڑی لگنے لگتی ہوں۔‘‘
اچانک بینش کو ایک عمدہ ساڑھی یاد آگئی، کہنے لگی ’’امی! آپ ساڑھی باندھ لیں۔ بہت مناسب رہے گی۔ وہ شادیوں میں پہنی جانے والی ساڑھی بھی نہیں ہے۔
ماں کو یہ تجویز اچھی لگی، کہنے لگیں ’’بات تو ٹھیک ہے۔‘‘ آخر طے پایا کہ وہ سبز رنگ کی ساڑھی پہن کر جائیں گی۔
بینش نے پھر اپنے لیے ایک ہلکے رنگ کا جوڑا نکالا اور بولی: ’’میں تو یہ پہنوں گی۔‘‘
ماں نے دیکھا تو ماتھے پر شکن ڈال کر کہنے لگیں: ’’کوئی نیا سا جوڑا نکالو۔ معلوم ہوتا ہے تمھارے وجود میں کوئی پرانی روح حلول کر گئی ہے۔‘‘
بینش بولی ’’نہیں امی! یونیورسٹی کی لڑکیاں ایسے ہی رنگ کے کپڑے پہنتی ہیں۔ وہ لوگ کیا سوچیں گے کہ یہ لڑکی یونیورسٹی جاتی ہے لیکن اسے اچھے لباس کا شعور نہیں۔ میں تو یہی جوڑا پہنوں گی! اس کے ساتھ سنہرا زیور اچھا لگے گا۔‘‘
اس دوران خالد کی دوسری بیٹی صبا بھی نہا کر نکل آئی۔ اس نے اپنے لیے کاسنی رنگ کے جوڑے کا انتخاب کیا۔ وہ کہنے لگی ’’آپی اس کے ساتھ نقرئی زیور اچھا لگے گا۔‘‘
تم سونے کے کانٹے کیوں نہیں پہنتیں؟‘‘ ماں نے بالوں میں پن لگاتے ہوئے پوچھا۔
’’امی! وہ میرے جوڑے کے ساتھ اچھے نہیں لگیں گے۔‘‘
’’جب بینش پہنے گی تو تمھیں بھی ضرور پہننے پڑیں گے۔ وہ لوگ کیا کہیں گے کہ ہم اپنی بیٹی کو دو بندے بنا کر بھی نہیں دے سکتے۔‘‘ ماں نے تاکیدی لہجے میں کہا تو صبا رو پڑی۔ یہ ہنگامہ سن کر جناب خالد بھی ادھر آگئے۔ وہ دور بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ قریب آکر کہنے لگے ’’کیا شور مچا رکھا ہے۔ جلدی کرو دیر ہوجائے گی۔‘‘
ماں کہنے لگی: ’’یہ لڑکی بڑی ضد ی ہے۔ اس نے کبھی میری بات نہیں مانی۔‘‘ خالد بھی اسے ڈانٹنے لگے۔ آخر صبا کو ماں کی بات ماننی پڑی، اس کی ساری خوش جاتی رہی اور پوری فضا گدلی ہوگئی۔ ادھر سے ہٹ کر ماں اپنے شوہر کے درپے ہوگئیں۔ ’’کیا غضب ہے۔ آپ بھی ابھی تک تیار نہیں ہوئے؟ جلدی کریں، پہلے ہی دیر ہوگئی ہے۔‘‘
خالد نے اخبار چھوڑا اور تیار ہونے لگے۔ انھوں نے بھی اپنے لیے خاص طور پر مہنگے سوٹ کا انتخاب کیا۔ خدا خدا کر کے یہ لوگ تیا رہوئے۔ جانے لگے تو سلمان کہنے لگا میں تو موٹر سائیکل لے جاؤں گا۔ آپ سب گاڑی میں چلے جائیں۔‘‘
بینش بھی اس کی حمایت کرنے لگی ’’امی جانے دیں، ایسے بھی اچھا نہیں لگتا کہ چھوٹی سی گاڑی میں اتنے افراد مل کر بیٹھیں۔‘‘
امی بولیں ’’سلمان تم اور اسد موٹر سائیکل پر آجاؤ، ہم تمھارے ابو کے ساتھ جائیں گے۔‘‘ یوں یہ چھوٹا سا قافلہ اپنی مزل کی طرف چل دیا۔
ادھر جناب زبیر کے گھر والے بھی کچھ کم نہ تھے۔ انھوں نے بھی خوب تیاریاں کی تھیں۔ گھر کی آرائش سے لے کر ذاتی زیبائش تک یہ بات خاص طور پر ملحوظ رکھی کہ آنے والوں کو اپنی امارت سے زیادہ سے زیادہ مرعوب کیا جائے۔ شام ہوتے ہی انتظار ہونے لگا۔ وہ سب ہر آہٹ پر چونک پڑتے کہ شاید مہمان آگئے اور پھر خاموشی چھا جاتی۔ مہمانوں کے آنے سے پہلے ہی وہ بہت مرعوب تھے کہ معلوم نہیں وہ کیسے اور کس معیار کے ہوں۔ وہ آپس میں دھیمے لہجے میں باتیں کر رہے تھے کہ اچانک مہمان آگئے۔ سب چوکنے ہوگئے۔
سب سے پہلے جناب زبیر مہمانوں سے ملے۔ بیٹھک میں داخل ہوتے ہی خالد نے چاروں طرف ایک ناقدانہ نگاہ دوڑائی۔ مخمل کے پردے، دبیز قالین، بالکل نئی چمکتی دمکتی میز کرسیاں اور گداز صوفے … غیر ملکی سامان آرائش بھی سلیقے سے سجا ہوا تھا۔خالد دل ہی میں سوچنے لگے ’’یہ ہیں تو میرے ہی ہم مرتبہ لیکن گھر خوب سجایا ہے۔ اب میں کھوج لگاؤں گا کہ ان کے پاس اتنا روپیہ کہاں سے آیا؟‘‘ اتنے میں زبیر کی بیگم اور بچے بھی آگئے۔
سب روایتی انداز میں پیار سے ملے۔ ایک دوسرے کا تعارف ہوا۔ مہمانوں کی تواضع مشروب سے کی گئی۔ پھر جو باتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اللہ کی پناہ! مگر باتیں کیا تھیں… شیخی خوری اور مسابقت کی ایک دوڑ تھی۔ فریقین میں سے جو جہاں چت ہوتا وہ گفتگو کا رخ کسی اور طرف موڑ دیتا۔ دونوں گھرانوں کی نگاہیں ناقدانہ اور انداز گفتگو فاخرانہ تھا۔
کھانے کا وقت ہوا تو جناب زبیر کی بیٹیاں ثمرین اور مہرین اٹھ کر کھانا لگوانے لگیں۔ ثمرین نازک ہاتھ سے اشارے کر کر کے ٹرالی لانے والی ملازمہ کو ہدایات دے رہی تھیں۔ تیسری بیٹی، فرزین، بینش اور صبا کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ جب سب کھانے کی میز پر بیٹھے تو بیگم زبیر بیگم خالد کے زیورات دیکھنے لگیں۔ نفیس جڑاؤ سیٹ، چوڑیاں، کڑے، انگوٹھیاں اور دوسرے ہاتھ میں کنگن … وہ دل ہی دل میں کہنے لگیں ’’زبیر سے کہوں گی، ذرا پتا، تو کرائیں یہ لوگ کیا کرتے ہیں؟ یہ مہمان ماں بیٹیاں تو سونے سے لدی پڑی ہیں۔‘‘
بیگم خالد نے کھانے کی بہت تعریف کی، کہنے لگیں: ’’کھانا بہت اچھا پکا ہے۔‘‘
اس پر بیگم زبیر جھوم اٹھیں اور اپنی بیٹیوں کی تعریف کرنے لگیں ’’میں نے اپنی بچیوں کو گھرداری کے سارے امور اور کھانا پکانا سب کچھ سکھایا ہے۔ کھانا یہ خود ہی پکاتی ہیں۔ آج کے کھانے بھی ثمرین ہی نے اپنی مرضی سے پکائے ہیں۔‘‘
خالد کی بیگم کہنے لگیں: ’’میری بیٹیاں بھی اچھا پکالیتی ہیں لیکن ابھی دونوں پڑھ رہی ہیں۔ چھوٹی بیٹی کالج اور بڑی یونیورسٹی جاتی ہے۔ کالج اور یونیورسٹی سے تھکی ہوئی آتی ہیں، گھریلو کام کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ وہ تو گھر آکر بھی پڑھتی ہی رہتی ہیں۔ اسی لیے میں نے خانساماں رکھ لیا ہے وہی پکاتا ہے۔‘‘
بچے ماں کا مہ تکنے لگے کہ وہ سفید جھوٹ کیسی صفائی سے بول رہی ہیں۔ خالد کا منہ بھی کھلا رہ گیا۔ وہ کھنکارے اور کھانا کھانے لگے۔ بیگم زبیر کو بیگم خالد کی طبیعت پسند نہیںآئی۔ وہ انھیں ایسی وحشی عورت کی طرح لگنے لگیں جس نے ان سے کوئی متاع بے بہا چھین لی او راب وہ بے بس ہوکر رہ گئی ہوں۔ وہ بھی موضوع بدل کر اپنے بچوں کی پڑھائی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی باتیں کرنے لگیں۔
کھانے کے بعد چائے کا دور چلا۔ اس دوران بھی مختلف موضوعات پر بہت سی باتیں ہوئیں۔ بچوں کی پڑھائی، بچوں کی لڑائی، ساسوں کی دوائی اور مہنگائی سبھی موضوع زیر بحث آگئے۔ جس طرح جسم اور روح کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، اسی طرح الفاظ کے ساتھ احساسات و جذبات بھی وابستہ ہوتے ہیں اور بات بات پر پھوٹے پڑتے ہیں مگر اس محفل میں میزبان اور مہمانوں کی باہمی بات چیت میں جھوٹ، شیخی اور ریاکاری کے عناصر پوری طرح موجود تھے، خلوص و محبت کی کوئی جھلک نہیں تھی۔
جناب زبیر کا بیٹا سہیل اسد اور سلمان کو لے کر کمپیوٹر کے آگے بیٹھ گیا اور تینوں لڑکیاں بینش اور صبا کو اپنا کمرہ دکھانے لے گئیں۔گھر کے دوسرے حصوں کی طرح وہ کمرا بھی جدید آرائشوں کا آئینہ دار تھا۔ بینش اور صبا خاصی مرعوب ہوگئیں۔ ان کے اپنے خیال میں ایک چھوٹا سا ٹیلی ویژن اور ٹیلی فون کمرے کو چار چاند لگانے کے لیے کافی تھا۔
گیارہ بجے شب ان کی واپسی ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ جاتے جاتے ان چند گھنٹوں کی خوشگوار یادیں ساتھ لے کر جاتے لیکن جیسے ہی مہمان رخصت ہوکر گاڑی میں بیٹھے اور میزبان واپس بیٹھک میں آئے تو ایک دوسرے پررواں دواں تبصرہ شروع ہوگیا۔ بیگم زبیر بولیں ’’افوہ کیا آفت کی پر کالہ عورت ہے۔ زبان تالو سے نہیں لگی۔ بولتی ہی چلی گئی۔‘‘
ثمرین ان کے زیورات اور لباس فاخرہ سے مرعوب تھی، کہنے لگی، امی! وہ خوش ذوق خاتون ہیں۔ انھوں نے کتنا نفیس زیور پہنا ہوا تھا۔‘‘
ماں کہنے لگی ’’کم سے کم دس تولے کا سیٹ ہوگا۔‘‘
ثمرین بولی ’’ان کی کلائیوں میں کڑے کتنے موٹے تھے۔‘‘
بیگم زبیر حیرت سے بولیں ’’پتا نہیں ان لوگوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے؟‘‘
زبیر معنی خیز مسکراہٹ سے کہنے لگے ’’مجھے سب پتا ہے۔‘‘
’’اچھا! تبھی تو میں سوچتی ہوں کہ ایک تنخواہ میں تو کوئی سونے سے اتنا پیلا نہیں ہوسکتا۔‘‘
ثمرین کہنے لگی ’’لڑکیاں کیسی ٹھسے دار اور نخریلی تھیں، بڑی لڑکی تو یوں باتیں کر رہی تھی جیسے ہمیں کسی بات کا پتا نہیں۔ جیسے زمانے بھر میں وہی اکلوتی لڑکی ہے، جو یونیورسٹی جاتی ہے۔‘‘
سب سے چھوٹی بہن فرزین بہت معصوم اور سادہ تھی۔ ہر ایک سے پیار سے ملنے والی، کہنے لگی ’’مجھے تو وہ دونوں بہت اچھی لگیں۔ میں نے ان سے ای میل بھی لے لیا ہے۔ میں انھیں پیغام بھیجوں گی۔‘‘
سہیل کہنے لگا ’’دونوں بھائی عجیب تھے۔ میں انہیں کمپیوٹر پر لے گیا، تو وہ یوں سمجھ رہے تھے جیسے یہ کمپیوٹر انہی کا ہوگیا ہے۔‘‘
بیگم زبیر جل کر بولیں ’’جیسے ماں باپ، ویسی ہی اولاد!
کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ جن مہمانوں کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں، اب سے تھوڑی دیر پہلے ان کی خاطر تواضع میں بچھے جا رہے تھے۔
ادھر خالد کی بیگم نے گاڑی میں بیٹھتے ہی پوچھا: ’’ادھر زمین کی کیا قیمت ہے؟ خاصی مہنگی ہوگی!‘‘
خالد کہنے لگے ’’اب مہنگی ہوگئی ہے لیکن زبیر نے تو یہاں کوڑیوں کے بھاؤ خریدی تھی۔صبا کہنے لگی ’’ابو! ان کے بچوں کے کمرے میں بھی ٹی وی تھا۔ ہمیں بھی لے کر دیں۔‘‘
بینش خاموش بیٹھی تھی، جھلا کر کہنے لگی ’’پہلے گھر تو پہنچ جاؤ پھر فرمائش بھی کرلینا۔‘‘ اسے اب تک یہ غصہ تھا کہ ابو جلدی میں اپنا موبائل گھر بھول آئے تھے۔ اس کے خیال میں آٹھ دس ہزار روپے کا موبائل نہ لانا کوئی معمولی غلطی نہیں تھی۔ وہ بھی اسی قسم کے حصار میں تھی، جس میں گھر کے بڑے چھوٹے گھرے ہوئے تھے۔ دونوں گھرانے اپنے اپنے مقصد میں بہت کامیاب رہے۔ میزبانوں نے روپیہ بہا کر مرعوب کیا اور مہمان انھیں احساس کمتری کی خندق میں پھینک آئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے میل ملاپ کا کیا فائدہ جس سے دونوں گھرانوں کے درمیان حسد اور جلن جنم لے لے؟
ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن ہوکر رہا۔ اب حالت یہ ہے کہ پرخلوص میل ملاپ ناپید ہوگیا ہے۔ سچی محبت خواب و خیال ہوگئی۔ کوئی شخص کسی سے بے غرض ہوکر نہیں ملتا۔ کہا تھا بابائے اردو مولوی عبد الحق دہلوی نے کہ آجکل ایک شخص دوسرے سے نہیں ایک ضرورت دوسری ضرورت سے ہاتھ ملاتی ہے۔ کاش ایسا ہوتا کہ خالد اور ان کے بال بچے اپنی امیری دکھانے اور رعب جھاڑنے کی بجائے خلوص اور محبت سے ملنے جاتے۔ اسی طرح زبیر اور ان کے بال بچے بھی خالد کے گھر والوں کا خلوص دل سے استقبال کرتے، انھیں اپنے گھر کا کر و فر نہ دکھاتے بلکہ عاجزی اور انکسار ی سے پیش آتے تو دونوں گھرانوں میں محبتوں کے چراغ جگمگانے لگتے۔
شخصی تربیت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کا جو رویہ ناگوار گزرے وہ ہم کسی اور کے ساتھ نہ دہرائیں، مطلب ان گزارشات کا یہ ہے کہ آپ کسی کے مہمان بنیں تو آپ کا برتاؤ خالد جیسا نہیں ہونا چاہیے، اور جب آپ کو میزبان بننے کا اعزاز حاصل ہو تو آپ زبیر جیسے میزبان نہ بنیں۔
بس اسی اک بات نے کتنوں کو چھوٹا کر دیا
اپنے قد کو دوسروں کے قد سے بڑھ کر دیکھناlll