۱۹۸۶ء کے ایک اخبار میں کسی دکھیاری ماں نے یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ ’’میری سب سے بڑی بیٹی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ اسے دفن کرنے کے لیے جب قبر کھودی گئی تو دیکھتے ہی دیکھتے اس جگہ پچاس ساٹھ سانپ جمع ہوگئے۔ دوسری جگہ قبر کھودنے لگے تو وہ سانپ ادھر بھی آکر کنڈلی مار کر اکٹھے ہوگئے اور ایک دوسرے پر بیٹھ گئے۔ پھر ناچار تیسری جگہ پر قبر کھودی گئی تو وہاں بھی دونوں قبروں سے زیادہ سانپ جمع ہوگئے۔ سب لوگ دہشت زدہ ہوگئے۔ وقت کافی گزرگیا، لیکن کوئی بھی نئی قبر کھودنے پر رضا مند نہ ہوا، ہر طرف لوگوں پر دہشت طاری تھی۔ لہٰذا باہم مشورے سے میری پیاری بیٹی کو سانپوں بھری قبر میں دفن کیا گیا اور دور ہی سے لوگ مٹی پھینک کر چلے آئے۔ اس واقعے سے میرے شوہر کی حالت بہت خراب ہوگئی۔ قبرستان سے واپس آکر وہ خوف کے مارے بار بار گردن جھٹکتے تھے۔‘‘
دکھیاری ماں نے اپنی بیٹی کے بارے میں مزید بتایا: ’’وہ ویسے تو نماز روزے کی بہت پابند تھی مگربہت زیادہ فیشن ایبل تھی، میں اکثر اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتی۔ افسوس اگر بیٹی میری باتوں پر توجہ دیتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔‘‘ آج بھی ضرورت ان باتوں پر توجہ دینے کی ہے اور ماؤں کو چاہیے کہ وہ کم عمری میں ہی اپنی اولاد کے اخلاق وکردار کو بنائیں تاکہ بڑے ہوکر وہ نافرمانی پر نہ اتریں۔