’’شیزا دیکھو تو اخبار میں میری کہانی آئی ہے۔‘‘ فاطمہ نے اخبار اس کے سامنے لہرایا۔ ڈھیروں خوشی اس کے معصوم چہرے پر رقصاں تھی۔
’’تو پھر کیا ہوا! کہانی لکھنا کون سا مشکل کام ہے۔ ہر کوئی لکھ سکتا ہے۔‘‘ اس کے حسد سے پُر لہجے نے فاطمہ کی ساری خوشی پر اوس ڈال دی۔ وہ چپ چاپ اپنے گھر لوٹ آئی۔ جب کہ شیزا اس کے جانے کے بعد بہت بے چین ہوئی۔ میرے بے حد غریب چچا کی بیٹی کہانی لکھ سکتی ہے، تو پھر میں کیوں نہیں۔ اس نے منٹوں میںکہانی لکھنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے بے حد خوبصورت اسٹڈی روم میں جاپہنچی۔ تھوڑی سی کاوش کے بعدوہ چھوٹی سے کہانی لکھنے میں کامیاب ہوگئی۔ اب میں فاطمہ کو بتاؤں گی کہ وہ کسی طرح بھی مجھ سے برتر نہیں ہے۔ وہ اپنی اس کارکردگی پر خوش او ر مطمئن تھی۔ اگلے ہی دن اپنی کہانی پوسٹ کرکے وہ اس کی اشاعت کا بے چینی سے انتظار کرنے لگی۔
آج وہ صبح سویرے اٹھی اور اخبار والے کا انتظارکرنے لگی۔ کیونکہ آج اس کی کہانی آنے والی تھی۔ اخبار فروش کے آتے ہی اس نے جھپٹ کر اخبار لیا اور بچوں کا صفحہ دیکھنے لگی، مگر اس کی کہانی نہیں چھپی تھی۔ پھر اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ ناقابلِ اشاعت تحریروں پر نظر ڈالی۔ اس کی آنکھیں نمکین پانیسے بھر آئیں۔ اس کی کہانی ناقابلِ اشاعت میں تھی۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ اس کا دل نہیں مان رہا تھا۔
’’شیزا کیسی ہو؟‘‘ وہ ٹیرس پر اداس کھڑی تھی کہ فاطمہ اس کے پاس آکربولی: ’’ہوں… ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ جیسے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی۔
’’شیزا کیا بات ہے کچھ پریشان لگ رہی ہو۔‘‘ فاطمہ اس کی پریشانی کی وجہ جانتے ہوئے بھی پوچھنے لگی۔
’’نہیں… نہیں تو… میں تو پریشان نہیں ہوں۔‘‘ آج وہ چاہتے ہوئے بھی لہجے میں ذرہ برابر سختی نہ لاسکی اس کے ساتھ بات کرتے ہوئے۔ شاید اس کی وجہ اس کی ناکامی تھی۔
’’فاطمہ تم کیسے لکھتی ہو؟‘‘ شیزا اس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے لان میں لے آئی۔
’’شیزا تم کہانی لکھ کر مجھے دکھاؤ، میں دیکھوں گی کہ تم کیا غلطی کرتی ہو۔‘‘
’’گویا تم جانتی ہو۔‘‘ اس نے اپنی انگلیوں کے پوروں سے آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کیا۔
’’مجھے خوشی ہے کہ تم نے کوشش تو کی۔ شیزا تم بہت اچھی رائٹر بن سکتی ہو مگر اس کے لیے تمہیں محنت کرنا ہوگی، تم کل کہانی لکھ کر مجھے دکھاؤ۔ میں کوشش کروں گی۔‘‘
جس کا ڈر تھاوہ تو اس کی ناکامی کو جان ہی گئی تھی۔ پھر اب کیا فائدہ کوشش کا … نہیں …میں ضرور لکھوں گی۔ اگلے دن اس نے دوبارہ کہانی لکھی اور فاطمہ کے پاس لے گئی۔
’’میرا نام شیزا ہے، صبح سویرے اٹھتی ہوں، ناشتہ کرتی ہوں، پھر اسکول کی وین کے آنے پر اسکول چلی جاتی ہوں۔‘‘ اس کہانی میں دن بھر کی مصروفیات کے سوا کچھ نہ تھا۔
’’شیزا تم کہانیاں یا کسی بھی طرح کی ادبی کتابوں کا مطالعہ کرتی ہو؟‘‘
’’نہیں میرے پاس وقت کہاں ہوتا ہے؟‘‘
’’شیزا اچھا لکھنے کے لیے اچھا پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ جب ہم اردو ادب کا مطالعہ کریں گے تب ہی کچھ لکھ سکتے ہیں۔ تم ایسا کرو مجھ سے کچھ کتابیں لے لو اور ان کا اچھی طرح مطالعہ کرو۔ پھر کہانی لکھنا۔‘‘
’’کیا ہوا… یہ کہانی بھی ٹھیک نہیں۔‘‘
’’اچھی ہے مگر ابھی نہیں، پہلے ان کتابوں کو پڑھو، کوشش کرو، پھر سب تمہاری تحریروں کے گرویدہ ہوجائیں گے۔‘‘
شیزا کتابوں کا بنڈل اٹھا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام کتابوں کو پڑھنے کے بعد اسے اپنی ہی تحریر کردہ کہانیوں پر خوب ہنسی آئی، جن پر کبھی اس نے فخر محسوس کیا تھا۔ بہت جلد وہ ایک اچھی کہانی لکھ کر اخبار میں پوسٹ کرچکی تھی اور پھر پہلے ہی ہفتے اس کی کہانی اخبار کے بچوں کے صفحے پر چھپ گئی۔
’’شیزا کی بچی تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ تم نے کہانی لکھی ہے۔‘‘
’’کیونکہ اپنی پیاری دوست فاطمہ کو سرپرائز جو دینا تھا۔‘‘ وہ شوخی سے بولی۔
اور پھر دونوں مسکرانے لگیں۔