دستک کے جواب میں دروازہ کھولا تو مہمان اندر داخل ہوئے۔ جو چند خواتین ایک بزرگ اور ایک نوجوان پر مشتمل ایک گروپ تھا اور جو اپنے لڑکے لیے رشتہ دیکھنے آیا تھا۔ میزبان خاتون اور دیگر اہلِ خانہ نے ان کا خیر مقدم کیا اور جلدی سے کرسیاں ڈال دی گئیں درمیان میں ایک میز پر چائے کے ساتھ لوازمات رکھ دیے گئے۔ مہمان اور میزبان آپس میں سلام کلام کرتے ہوئے کرسیوں پر براجمان ہوگئے۔ آپس میں باتیں کرتے ہوئے ماحول کچھ خوشگوار سا ہوگیا تھا۔ لڑکی دیکھنے آنے والے مہمان اپنے لڑکے کو بھی ساتھ لائے تھے کہ اگر لڑکی پسند آگئی تو اسی وقت رشتہ فائنل کردیں گے۔ کچھ دیر بعد لڑکے کی ماں نے لڑکی کی والدہ سے کہا: ’’ذرا لڑکی کو تو بلوائیے۔‘‘ لڑکی کی والدہ نے کہا:’’ہاں، ہاں کیوں نہیں۔‘‘ اور ساتھ ہی پاس بیٹھی اپنی چھوٹی لڑکی کو اشارہ کیا، وہ اٹھ کر اندر چلی گئی۔ لڑکے کی آنکھوں میں اشتیاق سا نظر آنے لگا اور والد صاحب کرسی پر پہلو بدل کر بیٹھ گئے۔
کچھ لمحوں کے بعد کمرے میں لڑکی داخل ہوئی، جس نے بڑا سا دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا اور سلام کرکے اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔
جی، یہ میری بڑی بیٹی فریدہ ہے اس نے دو سال قبل بی اے کیا ہے گھر داری میں ماہر ہے اور ساتھ میں دینی سمجھ بوجھ بھی رکتی ہے۔ اکثر دینی کتابیں پڑھتی رہتی ہے۔ قرآن اور حدیث کا مطالعہ تو روز کرتی ہے۔ یہ کہہ کر لڑکی کی والدہ نے ذرا رک کر لڑکے کے والدین کی طرف دیکھا اور پھر کہا: ’’اب آپ خود ہی دیکھ لیجیے۔‘‘
لڑکی قبول صورت تھی، لڑکے کی آنکھوں میں پسندیدگی جھلکنے لگی، بقیہ افراد نے بھی ایک اطمینان بھری نگاہ ڈالی۔ ’’اور ایک بات میں آپ کو بتادوں۔‘‘ لڑکی کی والدہ نے ان سے مخاطب ہوکر کہا: ’’میری بیٹی کو ایک حادثہ پیش آگیا تھا جب یہ چھ سال کی تھی اس کی دائیں ہاتھ کی دو انگلیا ںپتھر کے نیچے آنے سے کچلی گئیں اس لیے ڈاکٹر نے بچپن میں ہی دو انگلیا ںکاٹ دی تھیں۔‘‘ یہ سن کر لڑکے کی ماں کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اس نے آگے جھک کر بغور دیکھا، واقعی لڑکی کی دو انگلیاں کٹی ہوئی تھیں۔ لڑکے اور اس کے والد نے کچھ خاص تاثر نہیں دیا۔ لڑکے کی ماں نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا اس نے بھی سر ہلادیا، کچھ دیر بعد سبھی جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جاتے وقت لڑکے کی والدہ اور بیٹی نے کوئی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ میزبان افرادِ خانہ نے انہیں دروازے تک رخصت کیا۔ سبھی کے چہروں پر ایک نامعلوم سی اداسی نے ڈیرہ ڈال دیا تھا۔
راستے میں گھر جاتے وقت لڑکے کی والدہ نے بیٹی کی طرف دیکھ کر کہا: ’’لڑکی تو نقص والی ہے اب میں کیا خاندان بھر میں مذاق اڑواؤں اپنا؟ ساری عورتیں طعنہ دیں گی۔‘‘ پھر کیا کہیں : ’’لڑکے کی بہن نے ماں کی طرف دیکھ کر پوچھا بھیا کو تو پسند آگئی لگتا ہے انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ میں نے ابھی پوچھا تو بولے ٹھیک ہے لڑکی۔ نقص ہے تو کیا ہوا؟‘‘
لڑکی کی قابلیت بھی تو دیکھو۔ ’’لڑکے کی بہن نے لڑکے کے الفاظ دہرائے۔ چھوڑو اپنے بھیا کو، اس کو کیا پتا۔ لڑکے کی والدہ نے ناک چڑھا کر کہا۔
دوسرے دن فون کرکے انھوں نے لڑکی والوں کو جواب دے دیا کہ لڑکے کو آپ کی لڑکی پسند نہیں آئی وہ کہتا ہے کہ لڑکی تو مجھ سے زیادہ پڑھی ہے میں صرف انٹر پاس ہوں اس لیے جوڑی نہیں جمے گی۔‘‘
——