نگہ اٹھاؤں تو گردوں نظر میں رہتا ہے
وہ حوصلہ بھی مرے بال و پر میں رہتا ہے
دل و نگاہ میں فکر و نظر میں رہتا ہے
یہ کون ہے جو مری رہ گزر میں رہتا ہے
میں لاؤں بھی تو کہاں سے قیام میں لاؤں
وہ شوق و جوشِ جنوں جو سفر میں رہتا ہے
جو لٹ گیا ہے ملے گا جو مل گیا نہ لٹے
یہ وہم اب بھی دلِ معتبر میں رہتا ہے
نفس نفس فسوں ہے قدم قدم پہ فریب
عجب معاملہ اک خیروشر میں رہتا ہے
نہ انجمن میں ملے گا نہ دشت میں خالدؔ
کہ اب توقید وہ دیوار و در میں رہتا ہے