غزل

احسان دانشؔ

میں بے ادب ہوا کہ وفا میں کمی ہوئی؟

ہونٹوں پہ کیوں ہے مہرِ خموشی لگی ہوئی؟

آنکھوں کی نیند، دل کا سکوں خواب ہوگیا

میں سوچتا ہوں یہ بھی کوئی زندگی ہوئی

ممکن ہو جس طرح سے بھی طوفاں میں لو پناہ

کشتی کوئی ملی بھی کنارے لگی ہوئی؟

کمبخت دل جلا ہے تو گھر بھی جلا کے دیکھ

دنیا کو کچھ پتہ تو چلے روشنی ہوئی

دیکھا جتنی بار انہیں بڑھ گئی طلب

جتنی شراب پی ہے فزوں تشنگی ہوئی

احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے

کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی

جس کا نہ تھا خیال وہ محشر بپا ہوا

جس بات کی امید نہیں تھی وہی ہوئی

آنسو بہے تو دل کو میسر ہوا سکوں

پانی لگا تو کشتِ تمنا ہری ہوئی

آئی نہ اُن کے سامنے ہونٹوں پہ دل کی بات

ہر چند گاہ گاہ ملاقات بھی ہوئی

اہلِ ہوس میں عظمتِ دارورسن کہاں؟

مردوں کی زندگی نہ ہوئی دل لگی ہوئی

وہ جب کبھی ملے ہیں تو یہ کہہ کے رہ گئے

مدت کے بعد آپ کو دیکھا خوشی ہوئی

بولا ہے بڑھ کے جتنا بھی اوچھا وہی رہا

گم ہوگیا ہے جتنی جسے آگہی ہوئی

یہ دور ہے کہاں نئے نغموں سے آشنا

سب بات کہہ رہے ہیں ہماری کہی ہوئی

دانشؔ بغیر شمع رہا ہے دیارِ عشق

لیکن کبھی کبھی تو بڑی روشنی ہوئی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146