ازدواجی زندگی کے استحکام کے لیے ’’ضروری‘‘ ہے کہ اس زندگی کو شوہر اور بیوی دونوں انویسٹمنٹ کمپنی کی حیثیت سے دیکھیں جو منافع ہی دیتی ہے۔ کمپنی کے ممبر کی حیثیت سے دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کا بوجھ اٹھائیں اور منافع حاصل کرنے کی امید اور توقع پر کچھ قربانی دیں۔ آپ کو معلوم ہے یہ منافع کیا ہے؟! دنیا اور آخرت دونوںایک ساتھ۔
بہت سے ماہرین تعلیم و تربیت، خانگی مسائل اور ایسے مسائل سے دلچسپی رکھنے والے بہت سے اداروں نے ازدواجی زندگی کے بڑھتے مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو موجودہ طرزِ زندگی کی دین ہیں۔ خاص طور سے یہ مسائل اس وقت ابھر کر آئے ہیں جب عورت نے کام کے لیے گھر سے باہر قدم رکھنا شروع کیا ہے۔ اب عورت خواہ مرد کے کہنے پر گھر کی معاشی حالت کو بہتر کرنے اور اس میں حصہ لینے کی نیت سے نکلی ہو یا کسی اور وجہ سے وہ اپنی خواہش پر گھر سے باہر کام کرنے کے لیے نکلی ہو۔ عام طور پر اس کا نتیجہ یہی سامنے آتا ہے کہ عورتیں اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حد سے زیادہ کوتاہی کا شکار ہوجاتی ہیں، خاص طور سے اپنے شوہر کی ضروریات کا خیال اور ان کی ادائیگی صحیح سے نہیں کرپاتیں اور اولاد کی پرورش کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں کونہیں نبھا پاتیں، کیونکہ یہ سارے کام وہ نوکرانی پر چھوڑ دیتی ہیں اور وہ الٹا سیدھا جیسے چاہتی ہے کرتی ہے!!
عورتوں کے کام کرنے کے خلاف نہیں ہوں
میں ان لوگوں میں سے ہرگز نہیں ہوں جو مطلق طور پر عورت کو کام کرنے سے روکتے ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو ہم اپنی بیویوں کو ترجیحی طور پر مرد کے ڈاکٹر بجائے خاتون ڈاکٹر کے پاس کیسے لے جاسکیں گے؟ اور ہماری بچیوں کے لیے معلّمات کہاں سے آئیں گی، اگر ہم خود ہی اپنی بیٹیوں کو تعلیم سے محروم کردیں گے؟ بعض ایسے دیندار لوگ بھی ہیں جو اپنی بیٹیوں کو تو تعلیم دینے سے روکتے ہیں لیکن یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں اور بیویاں مرد ڈاکٹر کے بجائے خاتون ڈاکٹر ہی کے پاس بغرضِ علاج جائیں اور خاتون ڈاکٹر ڈھونڈھتے پھرتے ہیں۔ وہ لوگ اس بات کو نظر انداز کردیتے ہیںکہ اگر ان کی طرح تمام ہی لوگ اپنی بیٹیوں کو تعلیم سے محروم کرلیں تو عورت کے لیے عورت ڈاکٹر کہیں نہیں مل پائے گی!!
کام کرنے والی خاتون کے لیے ضوابط
اسلام عورت کو کام کرنے سے نہیں روکتا۔ لیکن اس نے عورت کے لیے کچھ شرائط اور ضوابط طے کیے ہیں، جن میں اہم ترین یہ ہیں:
۱- عورت جوکام کرنا چاہتی ہے وہ جائز ہو۔ ۲- عورت کے مزاج اور طبیعت سے مناسبت رکھتا ہو۔ ۳- مردوں سے عمومی اختلاط نہ ہو۔ ۴- عورت اپنے پردے اور عفت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ ۵-اس کام کے سلسلے میں اللہ کو حاضر و ناظر سمجھے۔ ۶- اس کی اولین ذمہ داریوں پر منفی اثر نہ پڑے۔ عورت کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر اور اس کی اولاد کا حق ادا کرے۔
ان تمام شرائط اور ضوابط کو ایک بنیادی اصول میں بیان کیا جاسکتا ہے، وہ یہ کہ عورت کا کام کرنا منظور ہے بشرطیکہ اس سے خاندان کا استحکام اور خوشیاں تہہ و بالا نہ ہوتی ہوں اور وہ کام خلافِ شریعت نہ ہو۔
ناقابلِ ستائش نمونہ
جب مجھے زوجین کے درمیان صلح کرانے یا ان کے درمیان جھگڑا نمٹانے کا موقع ملا تو دین داری کا دعویٰ کرنے والی بعض بیویوں سے ایسی باتیں سننے کو ملیں، جنھیں سن کر میں دنگ رہ گیا۔ اس طرح کے واقعات میں سے صرف ایک واقعہ بطورِ مثال یہاں پیش کرتا ہوں۔
ایک عورت نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق چاہتی ہے اور طلاق کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کو اور اپنے بچوں کو اپنے وطن واپس بھیجنا چاہتا ہے، پھر بعد میں شوہر نے خود اپنے سفرکا مقصد بتایا۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس نے طلاق لینے کا تہیہ ہی کررکھا ہے تو اس نے عدالت میں شوہر سے طلاق کا دعویٰ پیش کردیا۔
طلاق کے لیے اپیل دائر کرنے سے پہلے جب کہ میں ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش میں مصروف تھا – میں نے اس عورت سے پوچھا کہ وہ اپنی ملازمت کے مقابلے میں اپنے شوہر اور بچوں کو کیوں قربان کررہی ہے، تو اس نے اس کی یہ دلیل دی کہ اس کا شوہر اس پر مناسب خرچ نہیں کرتا ہے اور نہ ہی اس کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ لیکن جب میں نے اس کے ساتھ مسئلے کی نوعیت پر باریکی سے غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ عورت خود ہی فضول خرچ ہے اور شوہر کا مال غلط طریقے سے بے مصرف خرچ کرتی ہے، اور اتنا ہی نہیں بلکہ اسے اپنے ان مطالبات کی تکمیل پر مجبور کرتی ہے جو اس کی مالی حیثیت اور بساط سے باہر ہیں۔
مثبت نمونہ
میرا ایک بہت ہی عزیز دوست ہے۔ اللہ کی خاطر میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ آخری چند برسوں میں، جب میں اس سے ملا تو ہمارے تعلقات بہت خوشگوار ہوگئے اور آخرمیں مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک بیوی عطا کردی جو معلّمہ ہے۔ یہ بہن بڑی دین دار خاتون ہے۔ اس بہن کا شوہر یعنی میرا دوست بیمار پڑگیا اور ایسا بیمار پڑا کہ کام سے بالکل معذور ہوگیا۔ دوسروں کی مدد کا اس قدر محتاج ہوگیا کہ گھر میں بیٹھے ہوئے بھی بغیر مدد کے اس کے لیے کوئی کام ممکن نہیں تھا۔ اس شوہر سے اسے اللہ نے ایک بیٹا اور بیٹی سے نوازا ہے۔ یہ دونوں بچے ابھی ابتدائی تعلیم کے مرحلے میں ہیں۔ تدریسی ملازمت کے سلسلے میں اسے جو محنت اور مشقت کرنی پڑتی ہے، اس کے باوجود وہ اپنے شوہر کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا پورا خیال رکھتی ہے۔ یہ ایک وفا شعاربیوی کا بہترین نمونہ ہے۔ وہ اپنے شوہر کی دیکھ بھال اور اس کے علاج کے لیے پوری کوشش کرتی ہے، دوڑ بھاگ کرتی ہے اور اس کے لیے تمام ممکنہ اسباب حیات فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی پرورش کا بھی پورا پورا خیال رکھتی ہے۔
صحابیات کے روشن نمونے
ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ
شوہر کو سہارا دینے والی بیوی کا ذکر آئے تو فوراً ذہن میں ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کا نام آتا ہے۔ جس وقت اللہ کے رسول ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور آپؐ پریشانی کے عالم میں گھر واپس تشریف لائے تو، آپؐ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو اطمینان دلایا اور انھیں خوش خبری دی کہ ’’خوش ہوجائیے، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اسی طرح انھوں نے اپنے مال، اپنے مقام و مرتبہ سے آپ کی ڈھارس بندھائی، اور جب تک زندہ رہیں آپؐ کی پوری طرح مدد کرتی رہیں۔ حضرت خدیجہؓ آپ کو مشورہ بھی دیتیں اور آپ کی حوصلہ افزائی بھی کرتیں۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ
یہ اس روز کا واقعہ ہے جس دن صلح حدیبیہ ہوئی۔ اللہ کے رسولﷺ نے صحابہ کرامؓ کو قربانی کرنے اور سر منڈانے کا حکم دیا۔ آپؐ نے اپنی بات کو تین بار دوہرایا لیکن کوئی بھی آپؐ کے حکم کی تعمیل کے لیے راضی نہیں ہوا۔ آپؐ نے ام المؤمنین حضرت امِّ سلمہ ؓ سے مشورہ کیا، اور آپؐ نے ان کے اسی مشورے کو اختیار کیا جس نے امت کو بچالیا۔
حضرت اسماء رضی اللّٰہ عنہا
حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں: ’’جب حضرت زبیر نے مجھے اپنے نکاح میں لیا تو ان کے پاس ایک گھوڑے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ میں ہی اس گھوڑے کی مالش کرتی تھی اور اسے چارہ وغیرہ دیتی تھی۔ اس کے لیے کھجور کی گٹھلیاں کوٹتی تھی، گٹھلیاں میں زبیر کے اس باغ سے سر پر ڈھوکر لاتی تھی جو اللہ کے رسول ﷺ نے ان کو عطا کیا تھا۔‘‘ (متفق علیہ)
یعنی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا صبر و سکون کے ساتھ گھر کے کام انجام دیتی تھیں۔ گھر کے کاموں سے نہ کبھی ان کی طبیعت اکتائی اور نہ ہی بے زار ہوئیں، بلکہ اپنے شوہر کے جذبات کا پورا پورا خیال رکھا۔ اس کے بعد ان کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس ایک نوکرانی بھیجی تب جاکر ان کابوجھ ہلکا ہوا۔
وضاحت
یہ بات معلوم ومسلّم ہے کہ شوہر کی قوامیت اس لیے ہے کہ وہ گھر کی مالی ذمہ داریوں کے علاوہ دوسری ذمہ داریاں بھی اپنے سر لیتا ہے۔ اور اس قوّامیت کو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے: ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (النساء:۳۴)
میں قاری پر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ بیوی شوہر پر اپنا مال خرچ کرے، کیونکہ فرض تو یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی پراپنا مال خرچ کرے۔ میرا مقصد تو یہ ہے کہ بیوی کے اندر یہ رغبت ہونی چاہیے کہ وہ شوہر کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے، خاص طور سے اس وقت جب کہ شوہر پریشانیوں میں گھرا ہوا ہو۔ ——