دیوار

انورکمال

تمہارے اور میرے درمیان

غیر محسوس طریقے سے ایک دیوار حائل ہوچکی ہے۔

تم اُس پار

میں اِس پار

تم اس دیوار کوڈھا دینا چاہتی تھیں

شاید اس حد بندی کے لیے قصوروار میں ہی ہوں۔

یا شاید گردشِ ایام۔

یا

شاید میں ڈرپوک ہوں

یا

شاید وہ بے نام اندیشے ہوں جو میرے اطراف ناچتے رہتے ہیں۔

میں ایسا کیوں سوچتا رہتا ہوں؟!

یا

کچھ پانا ہی نہیں چاہتا؟

کیا محرومی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے؟

یا مکمل ہوکر ساکت ہونا زندگی کا المیہ ہے؟

لیکن!!

میں ابھی تک کہاں مکمل ہوا ہوں۔

میں تو ڈھونڈ رہا ہوں تمہیں۔

یہاں وہاں!

اپنے آپ میں!!

مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تم یہیں کہیں ہو۔

میرے پاس ہی ہو۔

نہیں نہیں تم یہاں نہیں ہو۔

شاید اُس پار ہو۔

پھر

اچانک تم کہاں سے میرے اندر چلی آتی ہو۔

اور

میں کیوں تم سے باتیں کرنے لگتا ہوں؟

شاید

میں خواب ہوں!

اور

تم حقیقت!

خلا میں بھٹکنا شاید پسند ہے مجھے۔

اور تم ہو کہ زمین پر لے آتی ہو مجھے۔

ایک بارمیں نے کہا تھا:

ایک احساس ہے میرے اندر۔

اس احساس کو کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔

کیوں کہ محسوسات، محسوسات ہوتے ہیں

انہیں الفاظ کا روپ نہیں دیا جاسکتا۔

اس پر تمہیں غصہ آگیا تھا۔

تمہاری جھنجھلاہٹ اور تڑپ سے خلوص کی خوشبو آرہی تھی۔اسی خوش بو کی مجھے تلاش تھی۔اور شاید یہ خوشبو مجھ میں رچ بس بھی گئی تھی۔

لیکن

پھربھی ایک دیوار تمہارے اورمیرے درمیان حائل ہی رہی

اور تم اس دیوار کو ڈھا دینا چاہتی تھیں

لیکن ایک خلا تھا

جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا

اس پر تمہیں غصہ آگیا تھا

اور تم نے کچھ کہا بھی تھا

تمہارے لبوں پر شکایت صاف ظاہر تھی

شاید یہ اپنائیت کا احساس رہا ہو

لیکن میں تھا کہ دیوار کے اس پار

کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔

تمہیں معلوم ہو کہ نہ ہو،

شاید تمہیں یاد ہوکہ نہ ہو، مجھے تلاش تھی ایک لمحہ کی

ایک لمحہ — جو روح میں وسعت بھردے۔

ایک لمحہ — جو شوخی اور مسرت دے دے۔

ایک لمحہ — جو احساسِ زیست میں الفت بھردے۔

ایک لمحہ — جو خوابوں کو حقیقت دے دے۔

اور اچانک مجھ پر یہ حقیقت آشکارا ہوئی تھی کہ یہ لمحہ تو

حاصل کرنے کے لیے نہیں

بلکہ

بانٹنے کے لیے ہے۔

یہ لمحہ میں تمہیں سونپ بھی دیتا،

لیکن

تمہیں گلہ تھا کہ

سچے حروف

محبت بھرے لفظ

الفت بھرے انداز تمہیں

انسیت بھرے انداز تمہیں

دے نہ سکا۔

جملے— جن سے روح میں آجائے تازگی،

جملے— جو بن جائیں زندگی کی دولت

تمہیں پیش کر نہ سکا

اور

میرا ہاتھ جب بھی تم نے تھامنا چاہا

میں نے اپنا ہاتھ چھڑالیا۔

تم لگاتار کچھ کہتی رہیں

اورمیں خاموش رہا

تم دیوانہ وار قہقہہ لگاتی رہیں

اور میں حیرت زدہ رہا۔

تم قریب سے قریب آتی رہیں،

اور میں دور سے دور جاتا رہا۔

تم نے آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کی،

اور میں نظریں چراتا رہا۔

تم کو حسرت ہی رہی

کہ میں نے ہاتھ تھام کر

کچھ تو پوچھا ہوتا

کبھی سر پر ہاتھ پھیرا ہوتا

کبھی جھنجھوڑا ہوتا

کبھی احساس جگایا ہوتا

یا

چانٹا ہی مارا ہوتا — اور پوچھا ہوتا

کہ تمہارا ذہن کیوں الجھا ہوا ہے اور یہ

کہ تم نے اپنا یہ کیا حال بنا رکھا ہے؛

لیکن

میں خاموش ہی رہا

اور

ایک دیوار تمہارے اور میرے درمیان

حائل ہی رہی۔

پھر بھی تم نے

مجھے اپنے سانچے میں ڈھالنا چاہا

لیکن

خود میرے سانچے میں ڈھلنے لگیں

اور

میں خاموش ہی رہا۔

ہاں!

میں خاموش ہی رہا۔

ایسا ہوتا آرہا ہے — شاید ایسا ہوتا رہے گا

ایسا ہوتا آرہا ہے — شاید ایسا ہوتا رہے گا

کیوں؟

اس ’’کیوں‘‘ کے پیچھے بہت سارے گمبھیر سوالات ہیں۔

لیکن

میں نے تم سے جواب نہیں پوچھا۔

میں نے تمہیں اپنے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کی۔

میں نے تمہارے احساسات نہیں جگائے ۔

تاکہ تمہاری مسکراہٹ قائم رہے

اور

تمہارے قہقہے گونجتے رہیں

تمہیں کوئی دکھ نہ ہو

تم خوش رہو۔

کوئی میرے قریب آئے تو اس کو کیا ملے گا؟

کانٹے، دکھ اور خاموشی!

یا میری شخصیت کی اداسی!!

تم خوشبو ہو، رچ بس جاتی ہو،

میں

کانٹا ہوں، زخم دیتا ہوں۔

تم خوش رہو ہمیشہ، مسکراتی رہو ہمیشہ

اور

میں ہمیشہ احساس کا زہر پیتا رہوں۔

شاید اسی لیے تمہارے اور میرے درمیان

ایک دیوارحائل ہوگئی ہے۔

اور

تم اس کو ڈھا دینا چاہتی ہو۔

لیکن

بے نام اندیشے میرے اطراف ناچتے ہیں

اور

میںسوچتا ہوں

اگر یہ دیوار ڈھے گئی تو کیا ہوگا؟

نہ جانے کیوں!ایک طویل عرصہ بعد

مجھ میں کیسے ہمت یکجا ہوئی کہ میں نے آج یہ دیوار ڈھا دی ہے۔ لیکن

مجھے دیکھ کرتم نے اچانک کیوں

یہ سوال کیا ہے کہ

تم کون ہو؟؟؟

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں