ہم سے نہیں جو تم کو سروکار دوستو
بھولو نہ اپنے آپ کو زنہار دوستو
فتنوں سے ہوشیار خبردار دوستو
اپنوں کے بھیس میں ہوں نہ اغیار دوستو
مانا کہ ہے بہت ہی کڑی زندگی کی دھوپ
ڈھونڈیں گے ہم نہ سایۂ دیوار دوستو
جو ہو سو ہو، پھریں گے نہ عہدوفا سے ہم
ہے زینتِ گلو رسن و دار دوستو
سمجھوں کہ مجھ کو دولت کونین مل گئی
پہلو میں ہو جو اک دل بیدار دوستو
ہم کو تو اپنی سعی مسلسل سے کام ہے
ہاتھ آئے پھول یا کہ ملے خار دوستو
حرف و زباں کی بات نہیں ماجرائے دل
مشکل ہے ایسی بات کا اظہار دوستو
عالم شکارِ شیوئہ اہل خرد ہے آج
پھر بھی جنوں ہے مفت گنہگار دوستو
مایوسیوں کا دل سے اندھیرا نہ چھٹ سکا
یہ زندگی ہے ایک شب تار دوستو
کاملؔ لیے متاع ہنر آگیا تو کیا
ملتے یہاں کہاں ہیں خریدار دوستو