میڈیا کا میدان اور طالبات
مئی ۲۰۱۰ء کا حجاب سامنے ہے۔ ٹائٹل خوبصورت اور جاذبِ نظر ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم اور کیریر پر خصوصی گوشہ کافی پسند آیا۔ دراصل ان دنوں اخبارات و رسائل میں تعلیم و کیریئر پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے۔ مگر وہ صرف طلبہ کے لیے انفارمیشن ہوتی ہے۔ اور زیادہ تر لوگ انجینئرنگ، میڈیسن یا دوسرے ایسے کورسز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جن میں بڑی بڑی تنخواہیں اور خوبصورت زندگی کے خواب چھپے ہوتے ہیں۔ سماج و معاشرے سے جڑی ان چیزوں کی طرف طلبہ و طالبات کم ہی متوجہ ہوتے ہیں جہاں سوشل سروس کا تصور بھی کام کرتا ہو۔
آپ نے بھی کیریئر کے سلسلہ میں رہنمائی کی ہے مگر خاص انداز میں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے صرف لڑکیوں کو پیشِ نظر رکھ کر مضامین لکھے ہیں۔ دوسرے اس میں ملک و ملت اور سماج کے لیے کام کرنے کی فکر واضح ہے۔ یہ ایک اچھا تصور ہے جو آپ طالبات کو دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ذہین طلبہ و طالبات صرف اپنی خوش حال زندگی کے تصور میں مست ہوکر میدانِ تعلیم کا انتخاب کرتے ہیں اور جب وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ملک اور سماج کی فکر سے آزاد بس اپنی ذات کی فلاح و بہبود میں ہی گم ہوجاتے ہیں اور سماج و معاشرے اور اس کے مسائل سے ایسے غافل ہوجاتے ہیں کہ انہیں یہ خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہاں کیا ہورہا ہے اور کیا ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کا بھی سانحہ ہے اور لوگوں کی سوچ کا بھی۔ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام صرف کمپنیوں کی ضروریات کی تکمیل میں لگا ہے اور ایسے ہی افراد تیار کررہا ہے جن کی انہیں ضرورت ہے۔ رہا معاملہ سماج، معاشرے اور ملک کی ضروریات کا تو اب اس کی تکمیل کرنے والے میدان ہائے تعلیم میں کوئی خاص کشش نہیں رہی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں تنخواہوں کا معیار وہ نہیں جو کارپوریٹ دنیا میں رائج ہے۔
مجھے شکایت ہے کہ آپ نے ایک اہم میدان کو نظر انداز کردیا اور وہ ہے میڈیا اور صحافت۔ یہ آج کے سماج میں اقدار کو بنانے اور بگاڑنے کا مؤثر ذریعہ بن گیا ہے۔ لوگوں کو وہی کچھ معلوم ہوتا ہے جو میڈیا انہیں بتاتا ہے اب میڈیا میں کون اور کس ذہنیت کے لوگ ہیں یہ آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور پورا سماج بھی۔
میرے خیال میں میڈیا اور صحافت یعنی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا ایک ایسا میدان ہے جس میں مسلم لڑکیوں کو خاص طور پر آگے آنا چاہیے اور اپنی نمائندگی کو بڑھانا چاہیے۔ آپ نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ پورے ملک کے بڑے بڑے صحافی، کالم نگار، اینکر اور خبر بنانے والوں میں کتنے ایسے ہیں جو نام سے مسلمان معلوم ہوتے ہیں۔ مردوں میں تو پھر بھی چند نام ملکی سطح پر ہیں مگر خواتین صحافیوں میں تو ایک دو کے علاوہ کوئی نام نظر ہی نہیں آتا۔
بہرحال یہ ایک اچھی کوشش ہے۔ اسے جاری رہنا چاہیے اور اس خط کے توسط سے میں ذہین اور مسلم طالبات کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس میدان میں پوری تیاری اور مضبوط فکر کے ساتھ آئیں اور مثبت انداز میں سماج کو بتائیں کہ کونسی قدریں ہمارے سماج کے لیے مفید ہیں۔ دوسرے الفاظ میں سماج و معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کریں۔ دعا ہے کہ ماہنانہ حجاب ترقی کرے اور لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔
ڈاکٹر خلیل الرحمن، عیسیٰ پور، سیفئی، یوپی
]خلیل صاحب! آپ نے درست توجہ دلائی ہے۔ صحافت کا میدان غیر معمولی اہمیت اور اثرات کا حامل ہونے کے باوجود ہمارے اس شمارے میں نہ آسکا۔ آئندہ انشاء اللہ اس پر مناسب مضمون تحریر کیا جائے گا۔ ایڈیٹر[
معیاری و متوازن رسالہ
حجاب ایک عمدہ، معیاری، پراعتدال اور متوازن رسالہ ہے جو ادبی دنیا میں سند کا مقام رکھتا ہے۔ افسانوں کو اہمیت دے کر آپ جو شائع کررہے ہیں یہ موجودہ نسل کے لیے تحفہ ہیں اور اردو ادب کی خدمت بھی ہے۔ ان دنوں میری ایک تمنا ہے کہ کوئی ایسا رسالہ ہو جو افسانوں کو اہمیت دے اور عوام تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ آپ یہ کام کررہے ہیں۔ مبارکباد قبول کیجیے۔
پروفیسر انورکمال، اسلامیہ کالج، وانم باڑی، تمل ناڈو
]انور صاحب! رسالہ پسند کرنے پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ ادب کا تعمیری نظریہ رکھنے والے قلم کاروں سے ہمارا مضبوط تعلق قائم ہوجائے۔ تاکہ مل کر سماج کی تعمیر میں اپنا اپنا رول ادا کیا جاسکے۔ آپ سے ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ اپنے حلقہ میں حجاب اسلامی کو متعارف کرائیں اور قلم کاروں کو اس بات کے لیے آمادہ کریں کہ ان کی تحریریں حجاب میں شائع ہوں۔ ایڈیٹر[
دہشت گردی کی آڑ میں
گزشتہ سالوں میں کئی بم دھماکے ہوئے مگر ان میں اجمیر کی درگاہ کا دھماکہ، مکہ مسجد حیدرآباد کا بم بلاسٹ اور سمجھوتہ ایکسپریس میں بم کا پھٹنا تین ایسے بڑے حادثے تھے جن کا صد فیصد شکار صرف مسلمان ہی ہوئے۔ حالانکہ اس بات کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا تھا کہ اس کے پیچھے کون سے عناصر ہوسکتے ہیں۔
بعد میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور اس کے معاونین کی گرفتاری سے یقینا ملک کے سامنے ان لوگوں کا چہرہ بے نقاب ہوگیا جو مسلمانوں کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش میں ملک کو کس قدر نقصان پہنچا رہے تھے۔
حالیہ دنوں میں دیویندر گپتا کی گرفتاری نے یہ بات ثابت کردی کہ ان دھماکوں کے پیچھے کون تھا۔ گپتا کے تعلقات پرگیہ سے بھی تھے۔ اس کا تعلق سنگھ کی تنظیم سے بھی ہے۔ دیویندر کے بڑے بھائی نے تو ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ ہمارے تعلقات سنگھ سے ہیں اور اس پر ہمیں کوئی خوف یا شرمندگی نہیں ہے۔ اب پولیس مکہ مسجد اور اجمیر کی درگاہ کے دھماکوں میں یکسانیت بتارہی ہے۔
تفتیشی ایجنسیوں کے بعض ذمہ داروں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ دیویندر گپتا کی گرفتاری کے بعد پولیس کو تحقیق کے لیے نئے سمتیں ملی ہیں اور ان پر تحقیق ہوگی۔
ہمارے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ کیا اب واقعی پولیس کو بم دھماکوں کی تحقیقات کے لیے نئے سراغ ملے ہیں اور کیا وہ اب ہر دھماکے کے پیچھے مسلم نوجوانوں اور مسلم تنظیموں کے نام تلاش کرنے کی مہم سے خود کو دور رکھیں گے۔
بہرحال اتنا تو واضح ہوگیا ہے کہ سنگھ سے وابستہ گروپ ایسی کوششوں میں مسلسل لگے ہیں جن کے ذریعے وہ مسلمانوں کو بدنام کرسکیں۔ اور اس گھناؤنے کھیل میں انہیں نہ کچھ ہندوؤں کا خیال ہے نہ دیش کا۔ کیا کوئی ہندو یہ تصور کرسکتا تھا کہ ہندوتو کے احیا اور دیش کی پوجا کرنے والے دیش کے ساتھ ایسی دشمنی بھی کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر نکہت فاطمہ ، لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ
مضامین پسند آئے
میں حجاب اسلامی کی اپنے طالب علمی کے زمانے سے ہی خریدار ہوں۔ فی الحال حجاب کا تازہ شمارہ ہاتھوں میں ہے اور لب پر بے شمار دعائیں۔ ہرماہ کا حجاب آپ لوگوں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے ہر کالم سے آ پ کی حجاب پر کی گئی محنتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رسالے کو خوب ترقی دے۔ آمین!
مارچ کا حجاب اسلامی ملا۔ دیکھ کر اور پڑھ کر طبیعت بہت خوش ہوئی ہمارے گھر کے سبھی افراد کو حجاب جیسا پاکیزہ رسالہ بہت پسند ہے۔ میں ایک ہفتہ یا ڈیڑھ ہفتہ کے اندر یہ رسالہ مکمل کرلیتی ہوں۔ میں ایک لیکچرار ہوں اور جی آئی او کی ناظمہ بھی ہوں۔ میرا ایک بچہ بھی ہے۔ انہی مصروفیات کی وجہ سے وقت کم ملتا ہے۔ ورنہ دل چاہتا ہے کہ اسے ایک ہی بیٹھک میں مکمل کرلوں۔ اس کے سبھی مضامین پسند آئے، خصوصی طور سے ’’بڑھتے ہوئے بچوں کی خوراک‘‘ ، ترجیح، صرف تین ہفتوں میں پھلوں سے علاج، خبیث روحیں، تربیتِ اولاد، صحت و صفائی کے لیے نبوی ہدایت قابل ذکر ہیں۔
حجاب اسلامی اپنی نوعیت کا منفرد رسالہ ہے، جس میں وہ سب کچھ موجود ہوتا ہے جس کی ایک گھر کی خواتین و طالبات کو ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ رسالہ کو مسلسل بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں کو کامیاب کرے۔ آمین!
نزہت شاہین، بلڈانہ، مہاراشٹر
——