آنکھ میں اشکِ تمنا کی ضیا کس کے لیے
جل گیا اب یہ سرِ شام دیا، کس کے لیے
کس کی آمد ہے کہ آفاق بچھے جاتے ہیں
بن گیا رنگِ شفق، رنگِ حنا کس کے لیے
دل ہے ویرانہ تو ویرانۂ دل میں اب بھی
آنکلتی ہے کبھی موجِ صبا کس کے لیے
بڑھ کے ویرانیِ صحرا سے ہے ویرانیِ شہر
شہر کو لوٹ کے جائیں تو بھلا کس کے لیے
ہم جدا تھے تو جدا تیرے لیے تھے خود سے
تو جدا ہے تو رہیں خود سے جدا کس کے لیے
یہ شب و روز کی دھڑکن، یہ لہو کی گردش
اے دلِ زار بتا،کچھ تو بتا کس کے لیے