ہمارے شوہر نامدار نے پڑھے لکھے لوگوں کی توہم پرستی پر ایک واقعہ سنایا۔
میں اپنے پروفیسر کے ساتھ ان کی کار میں ان کے گھر سے نکلا۔ جیسے ہی مین روڈ پر آنے کے قریب ہوئے ایک بلی سامنے سے گزرگئی۔ پروفیسر صاحب نے گاڑی واپس موڑ دی اور دوسرے راستے سے گھومتے ہوئے مین روڈ پر آئے۔ میں نے پوچھا آپ اتنا گھوم کر اور گاڑی پلٹا کر سڑک پر کیوں آئے تو پروفیسر صاحب نے فرمایا: یار وہ بلی راستہ کاٹ گئی تھی نا! کیا مطلب؟ جب گھر سے نکلتے وقت بلی راستہ کاٹ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ شگون اچھا نہیں ہے۔ کوئی حادثہ ہوسکتا ہے یا کوئی خراب چیز پیش آسکتی ہے۔
یہ یونیورسٹی کے روشن خیال کمیونسٹ پروفیسر کا طرزِ فکر وعمل تھا۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ عوام میں عقیدے اور مذہب کے نام پر کیا کیا باطل چیزیں رواج پاگئی ہیں۔ اسی کو توہم پرستی کہتے ہیں اور یہ سماج کے ہر طبقے میں اور ہر مذہب کے لوگوںمیں موجود ہے۔ مسلمانوں میں بھی بعض ایسی چیزیں مذہب کے طور پر رواج پاگئی ہیں جن کا شریعت میں کوئی مقام نہیں مگر لوگ اسے دین کا حصہ سمجھ کر کرتے ہیں اس طرزِ عمل پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
توہم پرستی یا ضعیف الاعتقادی کوئی نئی چیز نہیں۔ کسی نہ کسی شکل میں یہ ہمیشہ سے ہمارے معاشرے کا حصہ رہی ہے۔ مگر کچھ عرصے سے اس میں نئی نئی جہتوں کا اضافہ بڑی تیزی سے ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ ہمارے معاشرے میں ایک وبا کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ امیر ہو یا غریب، تعلیم یافتہ افراد ہوں یا جاہل … ہر طبقۂ زندگی میں اس کی کوئی نہ کوئی مثال موجود ہے۔
مثلاً صفر کے مہینے میں کالے یا سفید چنے بانٹنا، مچھلیوں کو آٹے کی گولیاں بناکر ڈالنا، پرندوں کو کچا گوشت کھلانا، ہاتھ دکھانا، ستاروں کی چال پر یقین رکھنا، عامل بابا سے نقش اور فال نکلوانا وغیرہ وغیرہ۔ یہ اور ان جیسی بہت سی بدعات عام ہیں اور عوام کی ایک کثیر تعداد ان کو کارِ خیر سمجھ کر ادا کرتی ہے جو کہ سراسر لغو اور بے بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دینِ اسلام کا ان چیزوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے مگر لوگ اس کو نہ صرف فرضِ عین سمجھتے ہیں بلکہ یہ تاثر عام ہے کہ ایسا نہ کرنے سے کسی بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ دین کی اصل روح سے ناواقفیت ہے۔ لوگ دین کی تعلیمات حاصل کرنے کے بجائے ان شارٹ کٹس کو ہی اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں۔ لوگ اپنے خوابوں اور خواہشات کی تکمیل کے لیے ان بے جا رسوم کا سہارا لیتے ہیں اور اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں۔
ایک اور بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ بہت سے افراد کا روزی روزگار بھی انہی توہمات سے وابستہ ہے اور وہ اپنا کاروبار چمکانے کے لیے عقیدے کی کمزوری اور دین سے دوری کی وجہ سے ان کا کام آسان ہوجاتا ہے اور وہ ایسے لوگوں کے جھانسوں میں آکر اپنا وقت اور پیسہ دونوں برباد کرتے ہیں۔ یہ صرف علماء کرام کی ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ارد گرد جہاں بھی توہم پرستی دیکھے اس کی نشاندہی کرے اور لوگوں کو اس سے باز رکھنے کی بھر پور کوشش کرے۔
——