دینِ اسلام میں توبہ کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے، جب دنیا کے پہلے انسان آدم علیہ السلام سے غلطی ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے خود انہیں یہ دعا سکھائی:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنo
(الاعراف: ۲۳)
قرآن و احادیث میں انبیاء و صالحین و مومنین کی صفات میں سے توبہ اہم صفت ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کا اس صفت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
الصابرین والصادقین والقانتین والمنفقین والمستغفرین بالاسحار۔
(آل عمران:۱۷)
’’جو صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور خاکساری اختیار کرنے والے اور (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والے اور (تہائی) رات کے آخری حصہ میں اللہ سے مغفرت طلب کرنے والے ہوتے ہیں۔‘‘
اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی صفت یہ بتائی ہے کہ جب ان سے کوئی گناہ ہوجاتا ہے تو وہ فوراً اللہ کی طرف رجوع ہوتے ہیں اور اس سے توبہ کرتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے:
’’اور کبھی اُن سے کوئی فحش کام سرزد ہوجاتا ہے یا وہ اپنے اوپر کبھی زیادتی کربیٹھتے ہیں تو معاً انھیں خدا یاد آجاتا ہے اور وہ اس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور خدا کے سوا کون ہے جو گناہوں کو معاف کرسکتا ہے؟ اور وہ جانتے بوجھتے اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔‘‘ (آل عمران:۱۳۵)
ہر انسان اپنے بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ انسان سے غلطی اور گناہ سرزد ہی نہ ہو مگر نیک لوگ وہ ہیں جو فوراً توبہ کرلیتے ہیں ۔ اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’سارے کے سارے انسان خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں۔‘‘
(ترمذی)
قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o
(الزمر: ۵۳)
’’اے میرے بندو جو اپنی جانوں پر زیادتی کربیٹھتے ہو خدا کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو، یقینا اللہ تمہارے سارے گناہ معاف کردے گا وہ بہت ہی معاف کرنے والا ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کو یہ ہرگز پسند نہیں ہے کہ کوئی اس کے بندے کو اس کی رحمت سے ناامید کرے اگر کوئی ایسا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کو ضائع کردیتا ہے جیسے کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ایک شخص نے کہا کہ قسم ہے خدا کی! فلاں شخص کو خدا نہیں بخشے گا۔ اللہ نے فرمایا کون ہے جو مجھ پر قسم کھاتا ہے کہ میں فلاں آدمی کو نہیں بخشوں گا، پس میں نے بخش دیا فلاں کو اور ضائع کیا تیرے عمل کو۔‘‘ (مسلم)
البتہ قرآن کی آیات سے یہ بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جو توبہ مطلوب ہے وہ خالص اور سچی توبہ ہے۔ قرآن میں فرمایا:
یایہا الذین آمنوا توبواً الی اللّٰہ توبۃ نصوحا عسیٰ ربکم ان یکفر عنکم سیاتکم۔ (تحریم:۸)
’’اے مومنو! خدا کے آگے سچی اور خالص توبہ کرو امید کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہوں کو تم سے دور فرمادے گا۔‘‘
حضرت کعب بن مالک کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے توبہ نصوح کے بارے میں سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ ’’جب تم سے کوئی قصور ہوجائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو پھر شرمندی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔‘‘ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ:
’’اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کربیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو وہ اسے معاف کردیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے۔‘‘ (الانعام: ۵۴)
ان آیات کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بشری کمزوری کی بنا پر بھول اور عزم کی کمی اور ارادے کی کمزوری جس کی وجہ سے انسان شیطان کے بہکاوے میں آکر غلطی کربیٹھے اس کی معافی ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ انسان غلطی کا احساس کرتے ہوئے اپنے رویے کی اصلاح کرلے اور انحراف چھوڑ کر اطاعت کی طرف پلٹ آئے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے نبی ﷺ نے فرمایا:
’’جب بندہ اقرار کرتا ہے اپنے گناہ کا پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘’ (متفق علیہ)
اس کے برخلاف کوئی سرکشی اور سرتابی اور سمجھ بوجھ کر غلطی کرتا ہے تو اللہ اس کو معاف نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ فرمایا ہے:
’’توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو برے کام کیے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے۔ اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی اور اس طرح توبہ اُن لوگوں کے لیے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کافر رہیں۔ ‘‘
(النساء:۱۸)
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ آثارِ موت شروع نہ ہوں۔‘‘
کیوں کہ امتحان کی مہلت تو ختم ہوگئی اور کتابِ زندگی ختم ہوگئی تو اب پلٹنے کا کونسا موقع ہے۔
یہاں اُن لوگوں کے خیالات کی نفی ہوتی ہے جو لوگ سوچتے ہیں کہ اب تو گناہ کرتے چلے جائیں گے اللہ سے معافی نہ مانگیں گے کیوں کہ ابھی ساری عمر پڑی ہے۔ اگر معافی مانگی تو پھر سے گناہ ہوجائے گا، اس لیے جب بوڑھے ہوجائیں گے تو کیا کام ہوگا بس تب اللہ کی عبادت کریں گے اور معافی بھی مانگیں گے۔ یا جب حج کو جائیں گے تو اللہ سارے گناہ معاف کردے گا۔
جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے، جس کو اللہ نے قرآن میں یوں فرمایا ہے:
واستغفروا ربکم ثم توبوا الیہ انہ رحیم ودود۔ (ہود: ۹۰)
’’اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ بے شک میرا رب رحیم ہے اور وہ اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔‘‘
اور نبی کریم ﷺ نے اس کی مثال یوں دی ہے کہ ’’ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں کچھ جنگی قیدی گرفتار ہوکر آئے۔ ان میں ایک عورت بھی تھی، جس کا شیر خوار بچہ چھوٹ گیا تھا اور وہ مامتا کی ماری ایسی بے چین تھی کہ جس بچے کو پالیتی اسے چھاتی سے چمٹا کر دودھ پلانے لگتی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اس کا حال دیکھ کر ہم لوگوں سے پوچھا کیا تم لوگ یہ توقع کرسکتے ہو کہ یہ ماں اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھوں آگ میں پھینک دے گی؟ ہم نے عرض کیا ہرگز نہیں خود پھینکنا تو درکنار وہ آپ گرتا ہو تو یہ اپنی حد تک تو اسے بچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی۔ آپؐ نے فرمایا : اللہ کا رحم اپنے بندوں پر اس سے بہت زیادہ ہے جو یہ عورت اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، جلد دوم)
اللہ کی صفات میں رحیم، غفور، عفو، ودود، روؤف اور لطیف ہیں۔ یعنی وہ رحم کرنے والا، بخشنے والا، معاف کرنے والا، نرمی اور محبت کرنے والاہے اور اس کی رحمت و محبت کی صفت تمام صفات پر چھائی ہوئی ہے۔ اور یہی امید ہے گناہ گاروں کے لیے۔ جب بندہ شرارتوں اور سرکشی اور فساد فی الارض میں اپنی حد سے گزرجاتا ہے تو اللہ اس کو بادلِ ناخواستہ سزا دیتا ہے۔ نہیں تو اس کا حال یہ ہے کہ جب بندہ اس کے پاس زمین و آسمان بھر کے گناہ لاتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو وہ اس کو معاف کردیتا ہے۔