میڈم! ٹونی بھاگ گیا ہے۔ خادمہ نے بیڈ روم میں آکر اطلاع دی۔
شہلا نے کچھ نہیں کہا بلکہ وہ چھت کی طرف خالی خالی نظروں سے تکتی رہی۔
نومبر کی صبح کی ہوا کے ہلکے جھونکے کھڑکی کے پردوں کو سہلا رہے تھے۔ چند دنوں سے شہلا اکثر خاموش ہوجایا کرتی اور گھنٹوں کسی خیال میں گم رہا کرتی۔ خادمہ اپنی مالکن کے مزاج سے واقف تھی۔ لہٰذا وہ سرجھکائے کھڑی رہی۔ کمرے میں گھڑی کی ہلکی سی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی۔
’’مالی کہاں ہے؟‘‘ تھوڑی دیر بعد شہلا نے پوچھا۔
’’وہ ٹونی کو تلاش کررہا ہے۔‘‘ خادمہ نے کہا۔
’’اس سے کہو کہ ہر حال میں ٹونی کو تلاش کرے۔ ورنہ تم تو میرے غصہ کو جانتی ہی ہو۔‘‘ وہ بولی
’’اچھا میڈم!‘‘ خادمہ نے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔
اسے کتوں کے بارے میں جانکاری نہیں تھی۔ فرحی کے کہنے پر اس نے ٹونی کو خریدا تھا۔ سفید بالوں والا ٹونی جب لان میں ادھر سے ادھر دوڑتا تو اچھا لگتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ پھاٹک سے باہر گیا ہو۔ ایک دو بار وہ پھاٹک کی طرف تیزی سے دوڑا بھی تھا۔ لیکن مالی نے لپک کر اسے اٹھا لیا تھا۔ ایسا اس وقت ہوا تھا جب پڑوس کے بنگلے میں چندر صاحب کی فیملی آئی تھی۔ ان کے پاس اسی کی نسل کی پنکی تھی۔ جب چندر صاحب مارننگ واک کے لیے پنکی کو لے کر ادھر سے نکلے تھے تو ٹونی نے باہر نکلنے کے لیے دوڑ لگائی تھی۔ تب شہلا نے مالی کو تاکید کی تھی کہ پھاٹک بند رکھے۔ نہ جانے آج کیسے ٹونی باہر نکل گیا ہے۔وہ سوچنے لگی اور اس کے چہرے سے کرب ظاہر ہورہا تھا۔
ماہ و سال کی اکائیاں عمر کے کتنے قیمتی لمحے چھین لیتی ہیں، اورپتہ بھی نہیں چلتا۔ جاوید کو گئے ہوئے بارہ سال ہوچکے تھے۔ اس نے سوچا تھا کہ وقت دھیرے دھیرے زخموں کو مندمل کردے گا اور جاوید کی یاد دھیمی پڑجائے گی۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ شاید بدن پر لگے زخم مٹ جاتے ہوں، لیکن روح کے زخم ہمیشہ ہرے رہتے ہیں شہلا کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا وجود ایک مٹی کا گھروندا ہے جو دھیرے دھیرے گھل رہا ہے۔ اور آہستہ آہستہ پلکوں کی چلمن کے اندر بسے ہوئے محلوں کو دیمک چاٹ رہی تھی۔
شہلا کے ڈیڈی ایر فورس میں پائلٹ تھے۔
اب وہ ریٹائر ہوچکے تھے۔
شہلا کی عمر پندرہ سال کی تھی، جب اس کی ماں کا انتقال ہوا تھا۔ ماں کے انتقال کے بعد اس کے ڈیڈی اکثر مغموم رہا کرتے تھے۔وہ اکثر کلب چلے جاتے یا سارا دن پیتے رہتے تھے اس کا ایک بھائی تھا، جو شادی کرنے کے بعد لندن میں بس گیا تھا۔
تب جاوید نے دھیرے سے اس کے دل کے آنگن میں قدم رکھا تھا۔ پھر آنگن میں روشنی ہی روشنی پھیل گئی تھی۔ شام کے سرمئی اندھیرے، بوٹ ہاؤز، سمندر کی ٹھنڈی ریت، کافی ہاؤز کی آخری ٹیبل، لانبی سڑکیں جن پر وہ دور تک پیدل نکل جایا کرتے تھے، ان کی یادوں کے امین تھے۔
اور ایک دن اچانک وہ اسے چھوڑ کر چلا جائے گا شہلا نے سوچا بھی نہ تھا۔ تم تنہا ہو شہلا۔ اس کے ذہن کے کسی گوشے سے آواز آئی اور اسے یاد آیا کہ ایک دن اسٹڈی روم میں اس سے فرحی نے کہا تھا۔
’’شلی! زندگی تنہا بسر کرنا مشکل ہے۔ سوسائٹی سے باہمی تعلق کے بغیر انسان اپنی اہمیت اور اپنے وجود کو ٹھیک طرح سے پہچان نہیں سکتا۔ یہ میل جول ہی ہے جس کے سہارے ہم اپنا دکھ درد بانٹ کر جینے کا سہارا ڈھونڈ سکتے ہیں۔‘‘
اور نہ جانے وہ کیا کیا کہہ رہی تھی۔ شہلا کا ذہن کہیں کھو گیا تھا۔ وہ کہنا چاہتی تھی۔
’’مجھے بھی سہارے کی ضرورت ہے۔ میں بھی اپنے دکھ درد بانٹنا چاہتی ہوں۔ میرا وجود ایک سائے کے تعاقب میں آگے بڑھ رہا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ سایہ ایک فریب ہے، یہ مسیحائے الم ہو نہیں سکتا۔ میں تو انمٹ اداسیوں کے گھیرے میں قید ہوں۔ میرا دل غم کے زہریلے نشتروں کے وار سہہ رہا ہے۔‘‘
لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکی۔ اس کے ہونٹ تھرتھرا کر رہ گئے۔ وہ سوچنے لگی یہ لمحے کتنے سخت ہوتے ہیں۔
گھڑی نے صبح کے سات بجنے کا اعلان کیا اور وہ چونک پڑی۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر باتھ روم میں چلی گئی۔
کافی دیر تک نیم گرم پانی میں نہانے سے اس کو فرحت سی محسوس ہوئی۔ جب وہ لباس تبدیل کرکے بالکنی میں آئی تو سورج کی کرنیں اسے چھونے لگی تھیں۔ جاڑے کی دھوپ بھلی معلوم ہونے لگی تھی۔
ایک طرف پنجرہ رکھا ہوا تھا۔ اس نے کور الگ کیا۔ پنجرہ میں بہت ساری رنگین چڑیاں تھیں۔ شہلا گریل تھام کر کھڑی ہوگئی۔
بیتی ہوئی یادیں بغیر دستک دیے دل کے اندر داخل ہوجایا کرتی ہیں۔ ایک شخص کی یاد کو وہ بھلا نہ سکی۔ اچانک اسے بے چینی کا احساس ہوا۔ شاید یہ ٹوٹے لمحوں کا لمس ہوگا۔ وہ خالی خالی نظروں سے پنجرے کی طرف دیکھنے لگی۔
پنجرہ- دائرہ اور قفس!
اس کے ذہن میں کئی دائرے گردش کرنے لگے۔ وہ تھوڑی دیر تک چڑیوں کی طرف دیکھتی رہی۔ اسے احساس ہوا کہ ان کی پرواز روک دی گئی ہے۔
شہلا نے ہاتھ بڑھا کر پنجرے کا کواڑ کھول دیا پھر وہ کمرے کے اندر آئی۔ اپنے بال درست کیے اور باہر نکل آئی۔
دن، جس طرح شروع ہوتا ہے، اسی طرح ڈھل بھی جاتا ہے۔ شہلا شام کو واپس آئی۔ اور صوفہ پر بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر تھکن کے آثار تھے۔ خادمہ نے چائے کی ٹرے میز پر رکھتے ہوئے کہا:
’’ٹونی نہیں مل سکا، میڈم!‘‘
’’کہاں گیا ہوگا وہ، اسے یہاں کسی قسم کی کمی بھی تو نہیں تھی۔‘‘شہلا نے خود کلامی کے انداز میں کہا۔
تھوڑی دیر بعد آہستہ سے شہلا بڑبڑائی۔
’’وہ بھی تو اسی طرح چلا گیا تھا۔‘‘ خادمہ نے یہ جملہ نہیں سنا۔ وہ تفکر آمیز نگاہوں سے اپنی مالکن کی طرف دیکھنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد شہلا بالکنی پر چلی آئی۔ شام کا سرمئی رنگ گہرا ہوتا جارہا تھا۔ وہ کافی دیر تک گریل پر پیشانی ٹیک کر خاموش کھڑی رہی۔ پھر پلٹ کر پنجرے کی طرف اس نے دیکھا۔ پنجرے کا کواڑ جوں کا توں کھلا ہوا تھا۔ لیکن اس کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پنجرے کے اندر تمام کی تمام چیڑیاں موجود تھیں۔
اور کمرے میں لگی ہوئی گھڑی کی ہلکی سی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی۔
——