فرانس کے صدر نیکولس سرکوزی کی جانب سے مسلم خواتین کے حجاب خصوصاً چہرہ ڈھانکنے پر تابڑ توڑ تنقید نے پوری دنیا میں نئے قسم کی پردہ مخالف مہم کا آغاز کیا اور اب اس کی باز گشت پوری دنیا میں سنی جارہی ہے۔ ازہر کے شیخ مرحوم کے ایک طالبہ پر، جو چہرہ کا پردہ کرتی تھی، سخت تنقید بلکہ توہین کے مراحل سے گزرتے ہوئے معاملہ ہندوستان اور دیگر غیرمسلم ممالک تک جاپہنچا۔ ہندوستان میں کیرلہ کے ایک عیسائی اسکول نے محض اسکارف پہننے پر اصرار کرنے کے جرم میں ایک طالبہ کوٹی سی تھمادی تھی۔جس پر ریاستی سرکار نے نوٹس لیا اور اس طالبہ کو دوبارہ داخلہ دیا گیا۔ یہ ہندوستانی جمہوریت اور مذہبی آزادی کی ایک خوبصورت تصویر ہے جہاں اسکارف پہننے پر طالبہ کے اخراج کو بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے خلاف تصور کیا گیا۔
دوسری طرف انسانی حقوق، شخصی آزادی اور جمہوریت کی پاسبانی کا دعویٰ رکھنے والی مغربی دنیا کا طرزِ عمل اور طرزِ فکر ہے جو مسلسل اس کوشش میں لگا ہے کہ کس طرح مسلم خواتین کے پردہ کو ختم کیا جائے۔ ان کے خیال میں پردہ عورتوں کی آزادی پر حملہ ہے اور ان کو گھروں میں قید رکھنے کا ذریعہ۔ اور یہ کہ وہ ’اپنی دنیا‘ میں بسنے والی مسلم خواتین کو اس ’جبر‘ سے ’نجات ‘ دلاکر ہی دم لیں گے۔ یہ طرزِ فکر اگرچہ پوری دنیا میںپایا جاتا ہے مگر شخصی آزادی اور جمہوریت کی قیادت کرنے والا مغربی خطہ اس میں پیش پیش ہے اور مغربی خطہ ہی کیا کئی مسلم ممالک، جن میں ترکی سرفہرست ہے، بھی شامل ہیں۔
اس مہم میں انھوں نے میڈیا کے ذریعہ خوب اچھی طرح اپنی سوچ کا پروپیگنڈہ کیا اور خواتین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی یہ پردہ جسے تم مذہبی حکم تصور کرتی ہو دراصل ایک قیدہے اور ’مذہبی‘ لوگوں کی تمہیں پسماندہ رکھنے کی سازش ہے۔ جب وہ اس مہم میں ناکام ہوگئے تو انھوں نے قانون اور اقتدار کا استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ طور پر قانون سازی کی فکر کی تاکہ ’پردہ کے وائرس‘ کو اپنے سماج میں پھیلنے سے روکا جاسکے۔ گویا یہ طاقت کا براہِ راست استعمال ہے جو اب شروع ہورہا ہے اور اسی کے ساتھ پردہ مخالف مہم کے نئے دور کا آغاز ہوگا جس میں اب قانون کا ڈنڈا بھی استعمال کیا جائے گا۔
اس کی قیادت بیلجیم کے حصہ میں آئی ہے جہاں پارلیمان کے ایوان زیریں میں عوامی مقامات پر پورے چہرے کے نقاب پر پابندی عائد کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اس بل کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔ یہاں سے پاس ہونے کے بعد اب یہ بل سینٹ میں بھیجا جائے گا جہاں سے منظوری کے بعد اسے باقاعدہ قانون کی شکل مل جائے گی۔ اس طرح بیلجیم یوروپ کا وہ پہلا ملک بن جائے گا جہاں عوامی مقامات پر چہرے کا پردہ قانونی طور پر جرم ہوگا۔
اس بل کا جواز یہ بتایا جارہا ہے کہ عوامی مقامات پر لوگوں کو شناخت چھپانے کا حق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ حفاظتی نقطہ نظر سے خطرناک ہے۔ اس سلسلہ میں اخبارات میں جو اطلاعات آئی ہیں ان میں اہم بات یہ بھی ہے کہ پانچ لاکھ کی مسلم آبادی والے اس ملک میں محض گنتی کیخواتین ہی ایسی ہیں جو چہرہ کا مکمل طور پر پردہ کرتی ہیں۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان خواتین کے لیے قانون بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
یہ سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی اور عروج کا دور ہے اور آج کل ایسے آلات موجود ہیں جو کسی بھی لباس میں انسان کے اندر تک کی تلاشی لے کر یہ بتاسکتے ہیں کہ اس کے پاس کیا ہے۔ ائیرپورٹس پر باڈی اسیکنرس موجود ہیں جن کے ذریعہ انسان کو بالباس ہونے کے باوجود بے لباس دیکھا جاسکتا ہے اور سیکورٹی نقطۂ نظر سے اطمینان حاصل کرلیا جاتا ہے۔ ان آلات کا استعمال اب اتنا عام ہوگیا ہے کہ ہر بڑے اسٹور، شاپنگ مالس، بس اور ریلوے اسٹیشنوں کے علاوہ پارکوں اور دیگر پبلک مقامات پر کارندے ان آلات کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ایسے میں اس بات کی چنداں ضرورت نہیں کہ آپ کسی خاتون سے، اس بات کے لیے اصرار کریں کہ وہ اپنا چہرہ کھول ہی دے۔ مگر یہاں کسی خاص جگہ یا موقع پر چہرہ کھولنے کی بات نہیں بلکہ چہرہ ڈھکنا، مستقل جرم بن جانے کی بات ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ اور اسباب و عوامل بھی یقینا ہیں جو یوروپی دنیا کو اس بات کے لیے مجبور کررہے ہیں کہ وہ اس پردہ کی سخت مخالفت بھی کریں اور ہدف تنقید بھی بنائیں اور اب معاملہ قانون سازی تک آپہنچا ہے۔ بیلجیم نے قانون سازی کی طرف قدم بڑھادیا ہے اور فرانس کے علاوہ کئی ممالک اس کی تیاری میں مصروف ہیں۔
مغرب میں خواتین کی آزادی کے ’خاص معنی‘ اور’خاص تصور‘ ہے اور اب یہ تصور صرف مغربی دنیا تک محدود نہیں رہا بلکہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس خاص تصور کے اثرات و نتائج بھی سب سے پہلے مغربی دنیا ہی نے دیکھے، اور باقی دنیا کے کچھ حصوں نے دیکھنے شروع کردیے ہیں اور کچھ کا دیکھنا باقی ہے۔ اس تصور کی خاص بات یہ ہے کہ وہ بہ ظاہر بہت دل ربا اور خوبصورت ہے مگر حقیقت میں اس نے خواتین کے سکون و چین اور عزت و وقار کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ گھر اور خاندان جو سماج کی بنیادی اکائی ہے، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے۔ عورت کا ’تحفظ‘ جو اس کی بنیادی ضرورت ہے ختم ہوگیا ہے اور اس کے استحصال کی نئی نئی شکلیں سامنے آئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی عورت اس خاص ’تصور آزادی‘ سے بیزاری اور اکتاہٹ کا شکار ہے۔ اور اسلام اور اس کے نظریات جن میں اسلام میں عورت کی حیثیت و حقوق خاص طور پر بحث کا موضوع رہے ہیں، اس کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس کی دلیل مغرب کی خواتین کے درمیان اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔ جو خواتین وہاں اسلام قبول کرتی ہیں ان میں اکثریت ان خواتین کی ہے جنھیں مسلم خواتین کے ’اسی پردے‘ نے اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر حقیقت کی تلاش و جستجو نے انہیں اسلام کی روشنی تک پہنچادیا۔
مغرب کی خاتون مشرق کی عورت سے کئی پہلوؤں سے مختلف ہے، ان میں اہم پہلو یہ ہے کہ وہ پڑھی لکھی اور غوروفکر کے نتیجہ میں حقیقت کو تلاش کرلینے کی اہل ہے۔ وہ اپنے علم و تجربہ اور مشاہدے کی بنیاد پر ردّ و قبول کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور یہی صلاحیت اکثر اسے سچائی تک پہنچادیتی ہے۔ ایسے ماحول میں یہی برقع ان کو اکثر اپنی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس لیے اہلِ مغرب اس بات سے پریشان ہیں کہ حق کی تلاش کے ’اس سرے‘ کو جسے اکثر یوروپی عورتیں پکڑ کر اسلام تک آتی ہیں کسی طرح ختم کیا جانا چاہیے۔
اسلام کا نظریہ حیات اور اس کی تہذیب و ثقافت اور مغربی طرزِ فکر اور کلچر کے درمیان موافقت انتہائی معمولی ہے اور اختلاف کی خلیج بہت وسیع۔ ایسے میں اسلام اور مغرب کے درمیان ایک تہذیبی کشمکش کا دور کئی دہائیوں بلکہ ایک صدی سے جاری ہے۔ یہ کشمکش صرف یوروپ اور مغربی دنیا کی جغرافیائی حدود کے اندر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جاری ہے۔ یہاں تک کہ مسلم ممالک میں بھی ہے۔ اس کشمکش میں مغرب ایک مضبوط حریف ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ ان تمام شناختوں کو ختم کردیا جائے، جو مسلمانوں کو مغرب سے مختلف کرتی ہوں۔ ان میں پردہ کا تصور بھی شامل ہے۔ چنانچہ اس وقت اہلِ مغرب اور اس کے طرف داروں کی پوری قوت اسی کے خلاف صرف ہورہی ہے اور وہ اس کے خاتمہ ہی میںاپنی ’حیات‘ دیکھ رہے ہیں۔
ایک اور بات جو اسی کا ضمیمہ ہے یہ ہے کہ مغرب کی عورت کی طرح مسلم عورت مردوں کے ہاتھوں کھلونا بننے کے لیے نہ کبھی تیار ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق کا خاص طور پر مسلم دنیا کا سماج نظریاتی طور پر ان بہت ساری چیزوں کا سختی سے مخالف ہے جو مغرب کی اقتصادی ترقی یا تجارت میں اہم درجہ رکھتی ہیں۔ گویا مغرب کی تجارتی ضرورت یہ بھی ہے کہ وہ مسلم خواتین میں وہی افکار و خیالات پروان چڑھائیں جو مغرب کی عورت میں پیدا کرچکے ہیں اور جس کے سبب وہ ان کی ایک ’’اچھی کنزیومر‘‘ بن گئی ہے اور یہ ناممکن ہے۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس وقت ہر طرف اسلام اور اسلامی نظریات پر یلغار ہورہی ہے اور ان کی ناکہ بندی کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مگر حقائق کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اسلام دشمن اور مغربی طاقتیں اپنی بوکھلاہٹ میں ایسے کام کررہی ہیں جن کا فائدہ مطلق طور پر ان کی مخالف طاقت کو ہی پہنچ رہا ہے اور پہنچے گا۔
نائن الیون کے بعد اسلام کے مطالعہ کا رجحان مغرب میں خاص طور پر اور باقی دنیا میں عام طور پر تیزی سے بڑھا ہے۔ اسی طرح اندازہ ہے کہ اگر پوری دنیا بھی حجاب پر پابندی لگادے تو اس کی مقبولیت اور تشہیر میں اضافہ ہی ہوگا۔ کیونکہ یہ بہت پرکشش اور عملی چیز ہے اور اصل میں یوروپ اسی حقیقت سے خوف زدہ ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام مخالف طاقتیں ہی دراصل اسلام کو موضوع بحث بناکر اس کی اشاعت کا ذریعہ بن رہی ہیں اور حجاب پر پابندی بھی اسی طرح کے نتائج لے کر آئے گی انشاء اللہ۔ ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم خواتین اسلام کو سمجھیں اور نظریہ کی بنیادوں پر صبر و ثبات کے ساتھ خود بھی اس پر قائم رہیں اور دوسروں کو اس کے فلسفے کا قائل کریں۔