’ماہم بیٹی صبح ہوگئی۔ جلدی سے برش کرلو۔ دانت صاف نہیں ہوںگے تو ناشتہ بھی نہیں ملے گا۔‘ سورج کی پہلی کرن نے جونہی دروازے پر دستک دی اُس کی امّی کی آواز سنائی دی۔ یہ روز کامعمول ہے۔ ماہم کی امّی چاہتی ہیں کہ ماہم بھی صاف ستھری رہے۔ اس کے کپڑے گندے نہ ہوں اور دانت بھی اتنے سفید ہوں کہ ہر کوئی اسے عزیز رکھے۔
ابتدا میں ماہم کو برش کرنا اچھا نہیںلگتاتھا لیکن اب وہ صبح کے علاوہ شام کو بھی پابندی سے اپنے دانتوں کی صفائی پر دھیان دیتی ہے۔ دانتوںپر برش کرتے وقت وہ اکثر اسی سوچ میں گم رہتی ہے کہ آخر یہ برش کہاں سے آیا؟ اسے کس نے اور کس طرح ایجادکیا؟ جب اس نے اپنی امی سے ذکر کیا تو انھوںنے اتوار کے دن فرصت میں اسے بتانے کا وعدہ کیا اور وقت مقررہ پر اپنا وعدہ بھی نبھایا۔
اس دلچسپ کہانی کامرکزی کردار انگلینڈ کی نیوگیٹ جیل کاقیدیولیم ایڈلیس ہے جسے فرقہ وارانہ فساد برپاکرنے کے جرم میںبندکردیاگیاتھا۔ دیگرقیدیوں کی طرح صبح کو بیداری کے بعد اسے بھی دانت صاف کرنے میںکافی پریشانیوں کاسامنا کرناپڑتاتھا۔ اس کے لئے وہ بھی درختوں کی چھال اور ملائم پتّوں کا استعمال کرتاتھا جس سے دانت صاف کرتے وقت بسا اوقات مسوڑھے بھی چھل جایاکرتے تھے۔ ایک دن ولیم کے ذہن میں کسی ترکیب نے سرابھارا۔
اس نے گوشت سے بچی ہوئی ہڈیوں میںسے ایک پتلی ہڈی کاانتخاب کیا اور اس کے ایک جانب سوراخ کرکے اس میں جانوروں کے سخت بالوں کو پھنسادیا۔یہ دنیا کاپہلا توٹھ برش تھااس ٹوتھ برش کی تقلید دیگر قیدیوں نے بھی کی۔اس طرح یہ چیز چند دنوںمیں ہی عام ہوگئی۔
جیل سے رہائی کے بعد ایڈلیس نے ٹوبھ برش بنانے پر توجہ دی اور ہڈی کے بجائے دیگر دھاتوں نیز لکڑیوں کااستعمال بھی کرنا شروع کردیا۔ ٹوتھ برش کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ ۱۵۸۰ء میںاس کی دریافت چین میں ہوئی۔ اس سے قبل ’عرق‘ نامی جھاڑی دار پودے کی ملائم شاخوں کا استعمال بطور مسواک کیاجاتاتھا۔ عرب ممالک سے قطع نظر ہندوستان میں نیم، کیکر، ببول اور جامن کی نرم شاخیں بھی دانتو ںکی صفائی کے لئے استعمال ہوتی تھیں جن کاسلسلہ گائوں میں آج تک جاری ہے۔
اٹھارہویں صدی میں ٹوتھ برش ۶ کے سیٹ میں یکجاملتے تھے جس میں کپڑا صاف کرنے والے بالو کی طرح ہی بال لگے ہوتے تھے۔ جب نائلون کی دریافت ہوئی اور پلاسٹک کا وجود عمل میںآیا تو اس
بھابھی نے کہانی شروع کی۔ ثریا اور ریحانہ ان کے ساتھ رضائی میں اس طرح دبک کر بیٹھ گئیں جس طرح ننھے منّے چوزے مرغی کے پروں سے اپنے جسم کو ڈھانک لیتے ہیں۔
…تو داروغہ معین الدین خان کے رعب اور دبدبے کا دور دور تک چرچا تھا۔ بڑے سے بڑے گھاگ مجرم سے جرم کااقرار کرالینا داروغہ صاحب کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کوئی چور یا ڈاکو زمین کی کتنی ہی تہوں کے اندر کیوں نہ چھپا بیٹھا ہو، وہ اسے اتنی آسانی سے برآمد کرلیتے تھے جیسے کھیت سے گاجر مولی اکھاڑلی جاتی ہے۔ داروغہ صاحب نے اپنی ان صلاحیتوں کے باعث عزت بھی حاصل کی اور شہرت بھی۔ اور دولت… دولت تو ان کے گھر کی لونڈی تھی، اس لیے کہ وہ بے حد چالاک آدمی تھے۔ موقع سے فائدہ اُٹھانا خوب جانتے تھے۔ جب کوئی ان کی مٹھی گرم کردیتا تھا تو وہ بڑے بڑے خطرناک معاملوںکو اس طرح پی جایا کرتے تھے جیسے ہم لوگ گرمیوں میںشربت روح افزا پیتے ہیں۔
ایک بار داروغہ صاحب کی دائیں پنڈلی میں ایک بڑا زخم ہوگیا۔ آہستہ آہستہ اس زخم کی تکلیف اتنی بڑھی کہ ان کا چلن پھرنا دوبھر ہوگیا۔ کتنے ہی حکیم ،ڈ اکٹر اور وید آئے اور چلے گئے۔ کسی کی دوا سے فائدہ نہیںہوا۔ زخم کی تکلیف بڑھتی ہی گئی۔ داروغہ صاحب چلنے پھرنے سے بالکل مجبور ہوگئے۔
ایک دن داروغہ صاحب کو ایک ایسے خاندانی حکیم کاپتہ چلاجو کبھی کسی نواب کے معالج رہ چکے تھے… داروغہ صاحب نے ان کو بلوایا۔ حکیم صاحب نے زخم کامعائنہ کیا۔ اس کے بعد کہا۔ ’’زخم دو مہینے میں ٹھیک ہوجائے گا۔ میں اس کے لئے مرہم تیار کردوںگا۔ لیکن مرحم کے لئے کم سے کم ایک سو بڑے بڑے سیاہ رنگ کے بچھوئوں کی ضرورت پڑے گی اور اتنے سارے بچھوئوںکا اکٹھا کرنا…‘‘
حکیم صاحب بات پوری نہیں کرپائے تھے کہ داروغہ صاحب بولے۔ ’’آپ فکر نہ کریں، میرے اتنے سارے ماتحت آخر کس دن کام آئیںگے۔‘‘
دوسرے دن درجنوں پولیس کانسٹبل بچھوئوں کی کھوج میں آس پاس کے جنگلوں میںپھیل گئے۔ لیکن اتنے بہت سے سیاہ زہریلے بچھوئوں کاملنا آسان بات نہ تھی… بڑی دوڑدھوپ کے بعد کوئی ایک بچھولایا،کوئی دو، کوئی تین اور کوئی ایک بھی نہیں۔ اس کے بعد سب تھک ہار کر بیٹھ گئے۔
اور پھر ایک دن کچھ کانسٹبل پولیس گاڑی میںایک مٹکارکھ کر لائے۔ اس مٹکے میںبچھو بھرے تھے۔ بڑے بڑے سیاہ زہریلے بچھو۔ان بچھوئوں کو دیکھ کر دہشت ہونے کے بجائے داروغہ صاحب کو اپنے غم کی سیاہی دور ہوتی نظرآئی۔ انہوںنے کانسٹبلوںسے پوچھا۔ ’’تمہیں اتنے سارے بچھو ملے کہاں؟‘‘
’’قبرستان میں!‘‘ ایک کانسٹبل نے جواب دیا۔
’’قبرستان میں؟‘‘داروغہ صاحب حیرت سے آنکھیں پھاڑکر بولے۔
’’جی ہاں!‘‘ کانسٹبل نے جواب دیا۔ ’’وہاں ہم نے ایک ایسی قبر دیکھی جس کے سرہانے اور پائنتی کی طرف دو سوراخ تھے اور ہزاروں کی تعداد میں چیونٹیوں کی سی قطار بناکر بچھو ایک سوراخ سے نکل رہے تھے اور دوسرے میںداخل ہورہے تھے۔ یہ بچھو ہم نے وہیں چمٹے کی مدد سے پکڑے ہیں۔
داروغہ صاحب اُسی روز اپنے ماتحتوں کے ساتھ قبردیکھنے گئے۔ یہ قبر کیاتھی بچھوئوں کی کان تھی۔ سینکڑوں اور ہزاروں بچھو ڈنک اُٹھائے قطار باندھے سوراخوں میں آجارہے تھے۔ ذرا دیر کے لئے داروغہ صاحب نے آنکھیں بندکیں اور اس بدنصیب مُردے کا تصور کیا جو نہ جانے کن گناہوں کی سزا میںقبر کی سختی جھیل رہاتھا۔ دہشت سے ان کا وجود تھرا اُٹھا… پوچھ گچھ کرنے پرمعلوم ہواکہ یہ قبر کسی داروغہ کی تھی جسے رشوتیں لینے کی عادت تھی۔
داروغہ معین الدین دو روز تک اپنے کمرے میں بند رہے۔ دونوں دن وہ کسی سے ملے جلے نہیں۔ بس پلنگ پر کبھی بیٹھے اور کبھی لیٹے ہر وقت کچھ سوچا کرتے تھے۔ تیسرے دن جب داروغہ صاحب کمرے سے باہر نکلے تو ان کے ہاتھ میںایک کاغذ تھا… یہ کاغذ ان کا استعفیٰ نامہ تھا۔ انھوںنے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیاتھا۔
’’کیا کہابھابھی؟ انھوںنے استعفیٰ دے دیا تھا؟‘‘ ثریا اور ریحانہ نے تعجب سے ایک ساتھ پوچھا۔
’’ہاں!‘‘ بھابھی نے کہا۔ ’’اس رشوت خور داروغہ کاانجام دیکھنے کے بعد انھوںنے نہ صرف رشوت خوری سے توبہ کرلی بلکہ انھیںاپنے عہدے سے بھی سخت نفرت ہوگئی تھی۔‘‘
——