انسان کے لیے دنیا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت بچے ہیں۔ وہ انسان خوش قسمت اور سعادت مند ہے جو اولاد کی نعمت سے بہرہ ور ہے۔ نیک بچے ہمارے وارث، قوم و ملک کے مستقبل کے سنبھالنے والے اور ملت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن و حدیث میں بچوں کی تعلیم و تربیت، اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے کے لیے رہنمائی کی گئی ہے۔ نیک، پرہیزگار اور اطاعت گزار اولاد کے لیے دعا مانگنا مؤمنین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے:
والذین یقولون ربنا ہب لنا من ازواجنا وذریتنا قرۃ اعین و اجعلنا للمتقین اماماo (الفرقان۲۵:۷۴)
’’اور جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنادے۔‘‘
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سب سے مشکل کام بچے کی تربیت و تعلیم ہے۔ یہ کام کسی مختصر مدت کا کام نہیں، بلکہ برسہا برس کی محنت، کاوش اور جدوجہد پر محیط ہے۔ جس طرح برسوں کی مدت سے ایک موتی سیپ میں بنتا ہے، اسی طرح برسوں کی مسلسل کاوش سے ایک کامل انسان بنتا ہے۔
ایک بچہ اسکول سے واپس آنے کے بعد دن رات کا تقریباً تین چوتھائی حصہ گھر میں گزارتا ہے۔ اور ایک حصہ گھر سے باہر اپنے ہم جولیوں کے ساتھ بھی گزارتا ہے۔ اس لیے تربیت کی بڑی ذمہ داری بچے کے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ذمے ہے، البتہ ایک حصہ (اوقات اسکول) تعلیمی ادارے اور اساتذہ کے ذمے ہے۔ بچہ اپنے ماحول سے بہت اثر لیتا ہے بلکہ اسے اپنے ذہن میں بٹھا لیتا ہے۔ اس لیے بچے کو اچھا ماحول دینا اور خراب ماحول سے بچانا ضروری ہے۔ لیکن یہ کام جتنا ضروری ہے اتنا ہی مشکل بھی، اور ایک طویل عرصے تک جاری رہنے والا عمل ہے۔ یہاں بچے کی تربیت کے حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:
پہلا مرحلہ
بچے کا سب سے پہلا مدرسہ اس کا گھر اور گھر میں خاص طور پر اس کی ماں ہے۔ جس طرح اپنی ماں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے ویسے ہی کرتا ہے۔ جس طرح وہ بولتی ہے، ویسے ہی وہ بولتا ہے۔ غرض کہ جو کام وہ کرتی ہے، بچہ بھی اس کی طرح کرتا ہے۔ گھر کے بعد دوسرا تربیتی مرکز اس کا مدرسہ اور اسکول ہوتا ہے اور ان میں استاذ اس کا ماڈل ہوتا ہے۔ بعض اوقات اسے اپنے استاد کی بات پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کی بات کسی صورت میں قبول نہیں کرتا، اور کہتا ہے کہ میرے استاد نے مجھے ایسے ہی بتایا ہے۔
بچہ چونکہ بیش تر وقت گھر میں گزارتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے بچے کی تربیت کی ذمہ داری بنیادی طور پر والدین پر رکھی ہے۔
بچے کی تربیت عام طور پر تین ذریعوں سے ہوتی ہے۔ ان میں سے دو کے ذمہ دار خاص طور پر ماں باپ ہوتے ہیں: (۱) تقلید (۲) رہنمائی (۳) تجربہ۔ ماں باپ کے ہر عمل کا مشاہدہ بچے کے ذہن پر نقش ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی کی وہ پیروی کرتا ہے اور اسی سے رہنمائی لیتا ہے، اور بتدریج تجرباتِ زندگی سے سیکھتا چلا جاتا ہے۔
بچوں کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ وہ ناسمجھ اور نادان ہوتے ہیں اور سمجھتے نہیں صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام ضروری صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ بنیادی طور پر یہ صلاحیتیں آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں، اور بچہ جو بھی دیکھتا ہے اسے کسی قدر اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتا ہے۔ تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ابتدائی عمر میں بچے کی شخصیت پر سب سے زیادہ اثر انداز دو ہی افراد ہوتے ہیں، یعنی ماں باپ۔
اس معصومانہ عمر اور ذہن میں جب وہ غلط اور صحیح کا علم نہیں رکھتا اور ابھی اس کی قوتِ فیصلہ نہیں بن پاتی، اس کے نزدیک ہر وہ بات جسے اس کے والدین نے صحیح بتایا ہو، صحیح اور جسے وہ غلط کہیں، غلط ہوتی ہے۔ جو کام والدین کریںگے بچہ بھی وہی کرے گا۔ والدین اشارے کریں گے تو وہ بھی کرے گا، جیسے وہ بیٹھیں گے، ویسے ہی وہ بھی بیٹھے گا۔ لہٰذا والدین، بڑے بھائی، بہنیں اور گھر کے دیگر افراد بچے کے لیے پہلا ماڈل ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ماں باپ پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا کتنا کٹھن کام ہے۔
گفتگو کا سلیقہ
بچے سے گفتگو کرتے ہوئے ان تمام باتوں کا لحاظ رکھیں، جنھیں بڑوں سے گفتگو کرنے میں ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان سے تو تڑاک اور گھٹیا لفظوں سے گریز کریں ورنہ وہ بھی ایسے ہی الفاظ بولیں گے۔ ہم ان سے تعظیم کے کلمات سے بات کریں گے تو وہ بھی ایسے ہی کلمات سیکھیں گے اور گفتگو کریں گے۔ لہٰذا بچے سے گفتگو کے دوران محتاط رویہ اپنایا جائے۔ ان کے سامنے بیہودہ مذاق، گالی گلوچ، تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ ہرگز نہ بولے جائیں۔ اس سے بچے کے دل سے رعب جاتا رہتا ہے اور اس کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مناسب رویہ یہی ہے کہ بچے کو حکمت سے صحیح اور غلط کی تمیز سکھائی جائے۔ جہاں ضرورت ہو سرزنش بھی کریں اور بچے کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ میری کوتاہی تھی جس کی بنا پر سرزنش کی گئی۔ اس سے بچے کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہوگا اور اس میں احساسِ ذمہ داری بھی بیدار ہوگا۔
بچوں کی گفتگو پر نظر
بچے کی گفتگو پاکیزہ، مہذب اور عمدہ اخلاق پر مبنی ہونی چاہیے۔ اس کام میں اس کی رہنمائی کرتے رہنا چاہیے، تاکہ آج کا بچہ کل بڑا ہوکر عمدہ گفتگو کرنے پر قادر ہوسکے اور اپنی عمدہ گفتگو سے دوسروں کو متاثر کرسکے۔ ہمارے معاشرے میں گالیوں اور بد زبانی اور گھٹیا الفاظ استعمال کرنے کا رواج ہے۔ انسان کی تعلیم و تربیت میں زبان کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس لیے بچے کی گفتگو کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور کوئی گالی زبان پر چڑھ گئی ہو تو اسے بھی چھڑوانا چاہیے۔ بعض گالیاں، کفریہ کلمے، گناہ ہوتے ہیں، جیسے کسی پر لعنت کرنا، جھوٹی قسم کھانا۔ ان گناہوں سے بچانا چاہیے۔ بچے کے سامنے اچھا نمونہ اور معیار رکھنا ضروری ہے۔
جھوٹ سے اجتناب
بچے کے سامنے دھوکا، ٹھگی اور بے ایمانی کی بات نہیں کرنی چاہیے اور نہ بچے سے یہ کہیں کہ دروازے پر جاکر پوچھنے والوں سے کہہ دو کہ ابا گھر پر نہیں ہیں۔ یہ جھوٹ اور بری تعلیم ہے۔ بچے کی شخصیت کی اٹھان سچ پر ہونی چاہیے۔ اسلام میں جھوٹ کی کس شدت سے مذمت کی گئی ہے اس کا اندازہ رسول اکرمﷺ کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے کہ مومن جھوٹا اور خائن نہیں ہوسکتا۔
تہذیب اور اخلاق
کوشش کریں کہ ایک کھانا تمام گھر کے افراد ضرور مل کر کھائیں۔ اس سے محبت بڑھتی ہے، بے تکلفی پیدا ہوتی ہے اور کھانے کا سلیقہ آتا ہے۔ کھانے میں برکت بھی ہوتی ہے۔ چھوٹوں، بڑوں کی تربیت ہوتی ہے، اور کمتری و برتری کا احساس ختم ہوتا ہے۔ باہمی محبت پرورش پاتی ہے، اور ہلکی پھلکی دین و دنیا کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ آج کل جنریشن گیپ اور باہمی دوری کی ایک وجہ یہ ہے کہ چھوٹے، بڑے مل کر نہیں بیٹھتے، بلکہ ایک دوسرے سے دور دور اور کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ اجتماعی کھانے کے اور بہت سے فائدے اور مصلحتیں بھی ہیں۔ باہم مل جل کر بیٹھنے سے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ بچے بڑوں کا ادب کرنا اور سلیقے سے گفتگو کرنا سیکھتے ہیں۔ اسلامی تہذیب اور آداب سیکھتے ہیں۔
صفائی و طہارت کی تربیت
ماں باپ کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اپنی اولاد کو صفائی اور طہارت کی تعلیم و تربیت دینا ہے۔ ان میں حرام و حلال، پاک و پلید، جائز و ناجائز، صفائی و گندگی کی تمیز پیدا کرنا ہے۔ ان کو شعور دینا چاہیے کہ پیشاب یا گندگی سے ہاتھ آلودہ ہوجائے تو اسے صاف کرنا اور ہاتھ صابن سے دھونا اور تولیہ استعمال کرنا چاہیے۔ اسی طرح کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کی تعلیم دینی اور اس کی حکمت اجاگر کرنی چاہیے۔
ماحول کے بگاڑ سے محفوظ رکھنا
گھروں سے باہر کے ماحول کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو اور بچے کو اس سے بچانے کے لیے اسے گھر میں رکھیں لیکن صرف گھر میں بٹھا دینا اور کوئی مصروفیت و مشغولیت نہ دینا ان کے ساتھ زیادتی اور غیر فطری کام ہے۔ اس لیے اس کی مصروفیت کی ایک لمبی فہرست سامنے ہونی چاہیے، جیسے کلاس کا ہوم ورک، چھوٹے بچوں کے لیے کھلونے، ان ڈور کھیل، ڈرائنگ اور رنگ بھرنا، اخلاقی اور معلوماتی کہانیاں پڑھنا، لڑکوں کو والد یا بڑے بھائی کے ساتھ مسجد لے جانا اور نماز پڑھانا، تفریحی پارک میں لے جانا، ٹی وی کے معلوماتی و تفریحی پروگرام (جیسے کارٹون دکھانا) وغیرہ۔ بچے کو بااخلاق اور اچھے پڑوسی کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی محدود اجازت دینی بھی چاہیے۔ رات کو بلکہ سورج غروب ہونے کے بعد بچے کو گھر سے نکلنے نہ دیں۔حدیث شریف میں اس کی ممانعت بھی ہے۔ بچے کو جیب خرچ کم دینا چاہیے اور اگر زیادہ دیا جائے تو اسے کسی طریقے سے جمع کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اس سے بچے کو ذمہ داری کے ساتھ پیسے خرچ کرنے اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے بچت کی تربیت ہوتی ہے۔
روز مرہ کی دعائیں سکھانا
بچوں کو روزمرہ کی دعائیں صحیح تلفظ سے یاد کرائیں، ان کی معنی بھی بتائیں اور موقع پر پڑھنے کی عادت ڈالیں، جیسے صبح اٹھنے کی دعا، سلام کرنا، بیت الخلاء میں جانے اور واپس آنے کی دعا، وضو کے بعد کی دعا، بسم اللہ صحیح پڑھنا، کھانا ختم کرنے کے بعد کی دعا، سبق پڑھنے اور علم میں اضافے کی دعا، الحمدللہ کہنا، شکر ادا کرنے کی دعا اور سونے وغیرہ کی دعا۔
بچوں کی حفاظت
بچوں کی صحت کے تحفظ کی ذمہ داری والدین پر ہے۔ اسی لیے بیماری کے وقت خود ہی علاج نہ کرنا چاہیے، خواہ مخواہ بیماری کو بڑھانا نہیں چاہیے، بلکہ کسی لائق ڈاکٹر یا حکیم کو دکھانا چاہیے۔ کھانے پینے کی اشیا میں ان کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مضر صحت غذا ہرگز نہ دینی چاہیے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کو پیش نظر رکھیے اور بچوں کو بھی ان سے آگاہ کریں۔
کتاب دوستی اور تعمیری سرگرمیاں
بچے کی تربیت کے حوالے سے ایک اہم پہلو ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھانا ہے۔ گھر چونکہ ابتدائی مدرسہ ہے، لہٰذا کتاب دوستی کی بنیاد گھر سے پڑنی چاہیے۔ آغاز میں ماں یا والدبچوں کو سوتے وقت قصے کہانیاں، انبیا کے قصص، حکایات اور دلچسپ کہانیاں سنا کر اس رجحان کو پروان چڑھاسکتے ہیں۔ بچوں کے ذوق اور سمجھ کے مطابق کتب سے کہانیاں پڑھ کر بھی سنائی جاسکتی ہیں۔ گھر میں بچوں کے رسائل بھی اس ذوق کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔ کبھی کبھی بچوں کو کسی کتاب کی دکان پر لے جاکر کتب بھی خرید کر دیں۔ امتحانات یا کسی کامیابی کے موقع پر کتاب بطورِ انعام دیں۔ بچے کا لائبریری سے تعلق پیدا کریں۔ کسی قریبی لائبریری میں بچوں کو ساتھ لے کر جائیں۔ اسی طرح اسکول لائبریری سے تعلق پیدا کریں، اور اساتذہ بھی اس کا اہتمام کریں۔ اس سے بچے کی کتاب دوستی بتدریج مضبوط ہوتی چلی جائے گی۔
تعلیمی ادارے سے ربط رکھنا
جہاں آپ کا بچہ پڑھ رہا ہے، کوئی ہنر سیکھ رہا ہے، وہاں کے پرنسپل اور ذمہ دار یا استاد سے کبھی کبھار مل لیا کریں۔ حال احوال لے لیا کریں۔ کبھی فون کریں، کبھی خود چلے جائیں، کبھی گھر والوں میں سے کسی کو بھیج دیں اور رابطے میں رہیں۔ بچے کو باقاعدہ اسکول بھیجیں اور چھٹی کی صورت میں ادارے کی انتظامیہ کو اطلاع دیں۔
بچے کی تعلیمی، دینی، اخلاقی اور معاشرتی تربیت کریں، اس کا دین و ایمان پختہ کریں تو وہ آپ کے لیے دنیا اور آخرت کی راحت کا سبب بنے گا۔ اس کی نیکیوں سے ایک حصہ آپ کو قبر کے اندھیرے اور تنہائی میں پہنچے گا۔ اور حساب کے دن اس کی شفاعت نصیب ہوگی۔ بچے کو درس گاہ اس طرح بھیجیںکہ وہ تعلیم کے وقت پر ادارے میں موجود ہو۔ بچہ مکمل تیاری کے ساتھ مقررہ لباس (یونیفارم) میں ملبوس ہو اور صفائی ستھرائی کا اھتمام کرکے جائے۔
اس کے علاوہ ایک خاص بات جس پر آج کل والدین بہت کم توجہ دیتے ہیں یہ ہے کہ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی نفسیات اور تربیت و تعلیم کے مسائل پر مسلسل مطالعہ کرتے رہیں، تاکہ وہ عملی زندگی کے تربیتی مسائل کو سمجھ کر ان سے اچھی طرح نبرد آزما ہوسکیں۔ یہ والدین کی ذمہ داری بھی ہے اور ایک اچھی نسل کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری بھی۔
(ترجمان القرآن، لاہور)
——