علم خزانہ ہے اور بحیثیت مسلمان حصول علم ہم پر فرض ہے۔ علم کے بہت سارے شعبے ہیں۔ سبھی شعبوں کا علم حاصل کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی مقصد۔ تو کیوں نہ ہم کوئی ایسا شعبہ چنیں جو ہمیں صرف فرض ادا کرنے، شہرت اور مال و دولت حاصل کرنے تک ہی محدود نہ رکھے بلکہ ملک و ملت کی خدمت و بھلائی اور اس سے بھی بڑھ کر خود اپنی شخصیت کے ارتقاء اور آنے والی نسل کی تعمیر یا اپنے بچوں کے تعمیر اخلاق و عادات کے لائق بنادے اور ان کی حرکات اور ان کے افکار کا بہ غور مطالعہ کے بعد ان کی صحیح رہنمائی کرنے کا اہل بنائے۔ ایسا ہی ایک شعبہ علم نفسیات ہے جسے ہم سائیکلوجی یا علم نفسیات کے نام سے جانتے ہیں۔
سائکولوجی کیا ہے؟
دراصل یہ ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعہ ہم انسانوں کی سوچ اور حرکات و سکنات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اسی نسبت سے اسے علم نفسیات اور اس کے ماہرین کو ہم سائکولوجسٹ یا سائی کے ٹرسٹ کہتے ہیں۔ البتہ ان دونوں میں ایک فرق ہے۔ سائی کے ٹرسٹ انھیں کہتے ہیں جنھوں نے میڈیکل (MBBS) کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس شعبے میں اختصاص یا مہارت حاصل کی ہو۔ یہ اکثر دماغی توازن بگڑے لوگوں کا علاج کرتے ہیں جب کہ سائکولوجسٹ وہ ہوتے ہیں جنھوں نے سائکولوجی کی تعلیم حاصل کی ہو۔ یہ اسپتال، کلینک اور اسکول وغیرہ میں نفسیاتی پریشانیوں کا علاج کرتے ہیں۔
اختصاص یا اسپیشلائزیشن:
کلینکل سائکولوجسٹ: یہ دماغی توازن بگڑنے کے اسباب و علاج کا مطالعہ کرتے ہیں۔
کوگینٹو سائکولوجسٹ: یہ Cognitive-memory، سوچ، عقل زبان و فیصلہ سازی کا پتا لگاتے ہیں۔
ڈیولپمنٹل سائکولوجسٹ: یہ انسانی زندگی کے ارتقائی مراحل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ بچوں کی نفسیات پر دھیان دیتے ہیں۔ کیونکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب صلاحیت ، سوچ اور حرکات و سکنات کو صحیح رخ دیا جاسکتا ہے۔ اور سب سے زیادہ ارتقاء اسی مرحلے میں ہوتا ہے۔
کائونسلنگ سائکولوجسٹ: یہ تعلیم گاہوں میں طلبا و طالبات کے لیے کیرئر منصوبہ بندی میں رہنمائی کا کام انجام دیتے ہیں۔
ایجوکیشنل سائکولوجسٹ: یہ خصوصاً تعلیم، نصاب تعلیم، تدریس اور اس سے متعلق معاملات و افعال کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کرتے ہیں۔
ایکسپیری منٹل سائکولوجسٹ: یہ نفسیات کے تمام بنیادی پہلوؤں (مثلاً علم اور ادراک) کا مطالعہ کرتے ہیں۔
سوشل سائکولوجسٹ: یہ سماجی و اجتماعی حرکات و سکنات معاشرتی روایات و اعمال کے تمام پہلوؤں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ اکثر سماجی خدمات انجام دینے والے اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
سائی کومیٹرک سائکولوجسٹ: یہ نفسیاتی پیمانوں کی افادیت کو پرکھنے، سدھارنے اور نئے پیمانے بنانے کا کام انجام دیتے ہیں۔
ری نیپلی سیشنل سائکولوجسٹ: یہ حادثات سے متاثر کم ذہن لوگوں کو ایک عام انسان کی طرح زندگی گزرانے کے لائق بنانے میں مدد کرتے ہیں۔
مطلوب ذاتی صلاحیت:
ایک اچھا سائکولوجسٹ بننے کے لیے قوت برداشت، دوسروں کو سدھارنے اور اصلاح کرنے کا جذبہ، قوتِ ارادی، دوسروں کو سمجھانے کی صلاحیت اور بہترین اظہار خیال کا حامل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ جو سب سے ضروری چیز ہے یہ ہے کہ ’’کچھ دینے کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ لینے کا۔‘‘
کیسے بنیں سائکولوجسٹ:
سائکولوجی کی تعلیم کی شروعات دسویں کرنے کے بعد شعبہ آرٹس میں تعلیم جاری رکھتے ہوئے کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد گریجویشن کی سطح پر سائکولوجی میں بی۔اے/ بی۔ایس۔سی کیا جاسکتا ہے۔ یہ کورس ہندوستان کے لگ بھگ سبھی کالجوں و یونیورسٹیوں میں موجود ہے۔ اس کے بعد اگر اسے بطور پیشہ اختیار کرنا ہو تو آپ کو اس مضمون میں لازماً ایم۔اے۔ یا ایم۔ ایس۔سی۔ کرنا ہوگا۔ یہ کورس دیگر پوسٹ گریجویٹ کورسز کی طرح دو سال کا ہوگا جو ہندوستان کی ستر (۷۰) سے زیادہ یونیورسٹیوں میں نفسیات یا ایپلائڈ نفسیات کے نام سے موجود ہے۔ ایک اچھا پروفیشنل بننے کے لیے پی ایچ ڈی کرلینا فائدہ مند ہوگا۔
روزگار کے مواقع:
تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ تدریس،کلینکل پریکٹس، یاکاؤنسلر کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ یہی نہیں آپ اسکول، اسپتال یا اجتماعی صحت کے اداروں کے خصوصی شعبہ گائڈنس سینٹر میں بحیثیت سائکولوجسٹ کام کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ آپ اپنے گھر کو جنت نما بناسکتے ہیں اور بچوں، بھائیوں، بہنوں و دیگر افراد کو صحیح رخ دے کر انھیں ملک و ملت کا بیش قیمت سرمایہ بناسکتے ہیں۔
چند خصوصی ادارے:
(۱) جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ نگر، نئی دہلی-۲۵
(۲) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، یوپی
(۳) رانچی انسٹی ٹیوٹ آف نیوروسائیکٹری اینڈ اپیلائیڈ سائنس، کانکے، رانچی، جھارکھنڈ
(۴) نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیوروسائنس، ہاسر روڈ، بنگلور، پوسٹ بکس نمبر:۲۹۰۰۔
(۵) ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن، میسور-۶
(۶) سری رام چندر میڈیکل کالج اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، یورر، چنئی-۱۶
اس کے علاوہ ملک کی بیشتر یونیورسٹیوں میں سائیکلو جی کے مضمون میں کوئی نہ کوئی کورس موجود ہے۔
——