قرآن نے صاف صاف حکم دیاہے کہ اپنے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرو۔ کیونکہ تم سے وعدے کے بارے میں قیامت کے دن پوچھاجائیگا۔ سرورعالمؐ نے فرمایا۔ کہ منافق کی تین علامتیں ہیں۔ ان میں سے ایک علامت وعدہ خلافی ہے۔ لہٰذا ایک مسلم کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ اگر کسی سے وعدہ کرے تو اُس کو پورا نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے مسلمان تو سچے اور پکے مسلمان تھے اس لئے قرآن جو اُن کو حکم دیتاتھا وہ اس پر پورا عمل کرتے تھے۔ ایک مسلمان نے کسی کو غصے میںپتھر اُٹھاکر دے مارا اور اس کی چوٹ سے وہ شخص مرگیا اسکے بیٹوں نے حضرت عمرؓ کی عدالت میںپتھر مارنے والے مسلم کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ وہ شخص حاضر کیاگیا۔
اس شخص نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا۔ اس اقرار کی رُو سے ظاہر ہے کہ اس کو قصاص میں قتل ہونے کے لئے تیارہوجانا چاہئے تھا مگر اس مسلم شخص نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی کہ میرا ایک نابالغ بھائی ہے اس کے لئے میرے والد نے میرے پاس ایک امانت رکھی تھی کہ جب وہ جوان ہوجائے تو دے دینا۔ لہٰذا تین دن کی مہلت دی جائے کہ میں گھر جاکر اس امانت کو کسی امانت دار کے ہاں رکھ آئوں ورنہ ڈر ہے کہ قیامت میں اللہ کے دربار میںپکڑاجائوں۔
حضرت عمرؓ نے فرمایاکہ میں تو تمہیں اسی وقت چھوڑونگا جب کوئی تمہاری ضمانت لے۔ اس نوجوان نے حاضرین کی طرف ایک نظر دوڑائی اور ایک بزرگ کی طرف اشارہ کرکے کہا یہ بزرگ میری ضمانت لیںگے۔ یہ بزرگ رسول اللہؐ کے مشہور درویش صحابی حضرت ابوذرغفاریؓ تھے۔ جب حضرت عمرؓ نے حضرت ابوذرسے پوچھاکہ کیا آپ اس نوجوان کی ضمانت لیتے ہیں اور اگر یہ تین دن کے اندر نہ آیا تو اس کے بدلے آپ کوقتل کردیاجائے گا۔ حضرت ابوذرؓ نے جواب دیاکہ جی ہاں! مجھے یہ منطور ہے۔ اب نوجوان اپنے گھر کو چلاگیا۔ اس کے ساتھ کوئی سپاہی، کوئی سی آئی نہیں بھیجاگیا کہ کہاںجارہا ہے۔ ایک دن دو دون۔ تیسرا دن بھی تیزی سے گزر رہاہے اور عصر کا وقت آگیا مگر اس نوجوان کا کوئی پتہ نہ تھا۔ اب تو رسول اللہؐ کے اصحاب میںکھلبلی مچ گئی کہ خدا نخواستہ اگر یہ نوجوان نہ آیاتو ایک عظیم صحابی کومفت میں جان دینی پڑے گی۔ کچھ لوگ حضرت عمرؓ کی خدمت میں آئے اور عرض کیاکہ آج تیسرا دن ہے اور عصر تک نوجوان نہیں آسکا ہے اس لئے حضرت ابوذر کے بدلے میں ہم کو قتل کردیاجائے اور ان کو چھوڑدیاجائے۔ مگر حضرت عمرؓ نے ان کی درخواست کو رد کردیا۔ اورفرمایاکہ نوجوان مجرم نہ آیاتو ابوذر ہی کی گردن ماری جائے گی ہاں اگر مرنے والے کے لڑکے خون بہالے کر معاف کردیں تو معاف ہوسکتا ہے۔ سب لوگ مرنے والے کے لڑکوں کے پاس گئے اور خون بہالینے پر تیارکرنے لگے۔ مگر وہ دونوںلڑکے نہ مانے۔
اب کیاتھا عصر کا وقت آگیاتھا گردن مارنے کے لئے جلادکو بلالیاگیاتھا اور حضرت ابوذر جلاد کے سامنے بٹھادیئے گئے تھے یہ ایک عجیب سماں تھا مدینے والوں کے لئے۔ سب لوگ ایک عظیم صحابی رسول کی جان مفت میں ضائع ہونے پر افسوس کرنے لگے اور رونے لگے۔ جلاد تلوارلے کر کھڑا ہوگیاتھا کہ ادھر حضرت عمرؓ حکم دیں اور ادھر صحابی رسول حضرت ابوذر کا سرقلم کردیاجائے مگراتنے میں وہ نوجوان ہانپتا کانپتا دوڑتا ہوا آگیا۔ مجرم آکر حضرت ابوذر کی جگہ پر بیٹھ گیا اور کہنے لگاکہ اللہ کاشکر ہے کہ میں آگیا ورنہ ناحق آپ کی جان جاتی۔ اس صورت حال کو دیکھ کر اپنے باپ کے خون کامطالبہ کرنے والے لڑکے جو پہلے منانے سے نہیں مان رہے تھے اب آگے بڑھ کر امیرالمومنین حضرت عمرؓ سے درخواست کرتے ہیں کہ ایسے سچے آدمی کو ہم معاف کرتے ہیں اور ہم خون کے بدلے مال بھی نہیں لیتے آپ اس نوجوان کو قتل نہ کیجئے ہم اس کو معاف کردیتے ہیں۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے نوجوان کو معاف کردیا اور فرمایاکہ جب تک ایسے مسلمان پائے جاتے رہیںگے اسلام پھیلتاہی رہے گا۔
——