ہمارے ایک قریبی رشتے دار پتھری کے مرض میںمبتلا تھے۔ اس کی وجہ سے جب کبھی ان کے ہلکا ہلکا درد ہوتا وہ کچھ دوا لے لیتے انھیں آرام ہوجاتا۔ بات آئی گئی ہوجاتی۔ ایک دن ان کے شدید در د ہوا، تڑپنے لگے جیسے انھیں نوکیلے پتھروںپرلٹادیاگیاہو، فوراً اسپتال میںایڈمٹ کیاگیا۔ ڈاکٹرنے فوری آرام کے لئے انجکشن دے دیا۔ سونو گرافی کرنے پر معلوم ہوا کہ مثانہ میں سیتا پھل کے بڑے بیج جتنا پتھر ہے۔ ڈاکٹر نے آپریشن کرانے کو کہا۔ موصوف بھی راضی ہوگئے۔ دن اور وقت طے ہوگیا۔ جہاں تک میں ان صاحب کو سمجھتا بوجھتا ہوں میرااندازہ یہ ہے کہ ذرا ڈرپوک قسم کے آدمی ہیں۔ (میرا اندازہ غلط بھی ہوسکتا ہے) لیکن بہرحال وہ آپریشن کرانے کے لئے تیار ہوگئے۔ ایسے حالات میں کمزور دل انسان کو بھی اللہ تعالیٰ ہمت و حوصلہ عطا کردیتا ہے۔ روز روز کی تکلیف سے نجات پانے کی خاطر انسان ایک دن کی تکلیف اٹھانے کے لئے تیار ہوہی جاتا ہے۔
مقررہ دن صبح ۸ بجے موصوف، ان کی اہلیہ اور دوسرے قریبی رشتے داروں کے ساتھ میں اور میری اہلیہ اسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹر نے مریض کے لئے ایک کمرہ کھلوادیا۔ مریض کو ٹھیک ۹ بجے آپریشن تھیٹر پہنچناتھا۔ آپریشن کے دوران اور بعد میں کام آنے والی دوائیں اور دوسرا سامان خریدکر کمپائونڈر کے سپرد کردیاگیا تھا۔
مریض کے کمرے میں خاموشی کا راج ہے۔ کمرے میں موجود سبھی افراد دعائوں میں مصروف ہیں کہ آپریشن کامیاب ہو اورمریض کو شفائے عاجلہ و کاملہ عطا ہو۔ مریض کو جب سے پتہ چلاتھا کہ انہیںپتھری ہوگئی ہے دعائیں کررہے تھے ۔
خدا کاشکر کہ آپریشن لیزر آپریشن تھا۔ چیرپھاڑ کاسوال نہیں تھا۔ پھربھی فکر تو ہوتی ہی ہے۔ کمرے میںٹنگی گھڑی کی سکنڈ والی سوئی سے ہمارے دل بندھ گئے تھے اور اس کی حرکت گویا ہمارے دل کی دھڑکن بن گئی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتاتھا دعائوں میں تیزی آتی جاتی تھی۔ دل کہتاتھاپلک جھپکتے میں آپریش ہوجائے اور ڈاکٹر مرض سے نجات کااعلان کردے لیکن دماغ کہتاتھا ایسا تو بس قصّے کہانیوںمیںہوتاہے۔ ڈاکٹر نے کہاتھا کہ آپریشن میں زیادہ سے زیادہ آدھ گھنٹہ لگے گا ایسے حالات میں آدھا گھنٹہ کس قدر طویل ہوجاتا ہے اس کاندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو کبھی اس طرح کے حالات سے دوچار ہوئے ہوں۔
۹بجا ہی چاہتے تھے کہ کمپائونڈر کمرے میںآیا اور مریض سے کہاکہ ’’چلئے‘‘ بس اسی پل پنکھا بندہوگیا۔ بجلی چلی گئی تھی، کمپائونڈر لوٹ گیا۔ دس پندرہ منٹ بعد ہی بجلی آگئی۔ مریض آپریشن تھیٹر جانے کے ارادے بیڈ سے اٹھے تو انہیں پیشاب کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی وہ طہارت خانے میں گئے۔ تھوڑی دیر بعد نکلے تو ان کے ہاتھ میں ٹِشو پیپر تھا، اس میں ایک پتھر تھا جو پیشاب کے ساتھ جسم سے باہر ہوگیاتھا۔ اسی اثناء میںڈاکٹر خود ہی وہاں آگیا۔ مریض کو آپریشن تھیٹر لے جانے کے لئے۔ ڈاکٹر کو جب وہ پھر دکھایاگیاتو وہ خود بھی حیرت زدہ ہوگیا اور گویا ہوا۔ ’’یو آر لکّی، پتھر خود بخود نکل آیا۔ آپ گھر جاسکتے ہیں۔‘‘
——