’’پڑھ لکھ کر کیا کروگی؟ مردوں کی طرح نوکری کروگی؟ آخر کو تمہیں گھر داری ہی سنبھالنی ہے۔‘‘ یہ وہ جملے ہیں جو اکثر گھروں میں لڑکیوں سے کہے جاتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں عورتوں کو تعلیم دلوانا غیرضروری اور بعض اوقات گناہ تصور کیاجاتا ہے۔ بعض نادان عورتیںبھی خیال کرتی ہیں کہ لکھ پڑھ کر ہمیں کون سی مردوں کی طرح نوکری کرنی ہے۔ لیکن اگر کسی عورت نے لکھ پڑھ لیاہے اور اس نے نوکری نہیں کی تو اس کالکھناپڑھنا بے کار بھی نہیں گیا بلکہ اس کو فائدے ہی پہنچیںگے جن کے مقابلے میں نوکری کی کچھ بھی حیثیت نہیں۔ جولوگ علم کو صرف نوکری کاوسیلہ سمجھ کر حاصل کرتے ہیں انہیں علم کی قدر نہیں۔ اس کی اہمیت اس قدر ہے کہ جیسے ظاہر کی دو آنکھیں ہمارے تمہارے سب کے منہ پر ہیں۔ کبھی اندھے فقیروںکی دعا سنو، کس حسرت سے کہتے ہیں ’’بابا آنکھیں بڑی نعمت ہیں۔‘‘ شایدکوئی بھی ایسا سنگ دل نہیں ہوگا جس کو اندھوں کی معذوری اور بے بسی پر رحم نہ آتا ہو، لیکن دل کے اندھے جن کو لکھنا پڑھنا نہیںآتا، ان سے کہیںزیادہ قابل رحم ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ ابھی تک بہت سی جگہوں پرخواتین کی اعلیٰ تعلیم کو عیب اور گناہ خیال کرتے ہیں، ان کو یہ خدشہ ہوتاہے کہ زیادہ پڑھ لکھ کر لڑکیاں بگڑ جائیںگی۔ جب کہ علم تو انسان کی اصلاح کرتا ہے، شعور و آگہی کی راہیں کھولتا ہے۔ اس کو بگاڑتا نہیں ہے۔ اگر بگاڑتا ہے تو مردوں کو بھی پڑھنے لکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے تاکہ بگڑنے نہ پائیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بے شک بعض پڑھے لکھے مرد بھی آوارہ اور بدخلق ہوتے ہیں، لیکن کیاعلم نے ان کو آوارگی اور بدخلقی سکھائی؟ نہیں، آوارگی اور بدوضعی انہوںنے بُری صحبت میں سیکھی۔ جب کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ تمام کے تمام پڑھے لکھے ایسے ہی ہوں۔ بلکہ اکثر نیک، ماں باپ کا ادب کرنے والے،بھائی بہنوںسے محبت رکھنے والے، بڑوں اور چھوٹوں کا احترام کرنے والے، سچ بولنے والے، غریبوں کی مدد کرنے والے، بزرگوں کی نصیحت پر عمل کرنے والے ملیںگے۔
جولوگ یہ سوچتے ہیں کہ عورتوں کو صرف گھر داری ہی سنبھالنی ہے تو اس حوالے سے انہیں یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ خانہ داری میں صرف کھانا پکانا،دھونا، سیناہی نہیں، بلکہ اس خانہ داری میں اولادکی تربیت بھی شامل ہے۔ کسی کام میں عورتوں کو علم کی ضرورت شاید نہ بھی ہو مگراولاد کی تربیت علم کے بغیر ہونی ممکن نہیں ہے۔ اولاد کی اگلی زندگی ماں کے اختیار میںہے، چاہے تو شروع سے ان کے دلوں میںپاکیزہ خیال بھردے اور چاہے تو ان کے اخلاق و اطوار بگاڑدے۔ مردوں کی نسبت عورتوں کو پڑھنے لکھنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اس لئے کہ انہیں تربیت نسل جیسا اہم فریضہ سر انجام دینا ہوتاہے۔ یہ اسی وقت بہ حسن و خوبی انجام پاسکتا ہے جب عورت پڑھی لکھی اور علم کی سوجھ بوجھ رکھتی ہو۔ مرد تو باہر کے چلنے پھرنے والے ہوتے ہیں، لوگوں سے مل جل کر بھی تجربہ حاصل کرلیتے ہیں لیکن عورت گھر میں بیٹھی بیٹھی کیاکرے گی؟ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر گھر میں بیٹھے بیٹھے ساری دنیا کی سیرکرسکتی ہے۔ زمانے بھر کی باتیںمعلوم ہوسکتی ہیں۔ جغرافیہ اور تاریخ کی کتابوں کی سیر کرسکتی ہے۔
علم کی اہمیت رسولؐ کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے کہ ’’تعلیم کاحاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘ یعنی تعلیم صرف مردو ںکی میراث نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی ایک فریق (یعنی مرد) کے لئے ہی لازم قرار دیاگیا ہے، بلکہ یہ دونوں پرفرض ہے۔ جو لوگ عورتوں کو علم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں وہ گویا ان کو سچی، حقیقی، پاکیزہ، بے لوث، کھری اور پائیدار نیک دلی سے روکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ عورتوں کو خدا نے جاہل رہنے کے لئے نہیں بنایا۔ مسلمانوں کی تشفی کے لئے تو شاید اس سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں اللہ نے اپنی ایک صحابیہ شفا بنت عبداللہ سے حضرت حفصہ کے بارے میں فرمایاکہ ان کو بھی لکھناسکھائو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم کی کیا قدرو منزلت ہے اور بالخصوص عورتیں اسے حاصل کئے بغیر نہ صرف گھر بلکہ معاشرے کی ترقی کی بھی ضامن نہیں ہوسکتیں، چنانچہ عورتوں کو تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم رکھنا بہت بڑی جہالت ہے۔