خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں حج کے دنوں میں مکہ، منیٰ اور عرفات میں پانی کی قلت اس حد تک ہوتی کہ بعض اوقات ایک گلاس پانی ۸۰؍اشرفی میں فروخت ہوتا۔ حجاج کرام پانی نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر مرجاتے۔ ایسے میں ہارون الرشید کی اہلیہ زبیدہ خاتون نے ۱۷؍لاکھ اشرفیاں خرچ کرکے عرفات کے پہاڑوں سے نہر کھدوائی جو بارہ سو سال تک عرفات میں حاجیوں کو سیراب کرتی رہی۔ ملازمین نے نہر کے اخراجات کا حساب و کتاب ملکہ کو پیش کیا تو ملکہ نے کاغذات دریائے دجلہ کی طرف اچھال دیے اور فرمایا کہ آج کا حساب یومِ حشر کے حساب سے نجات کے لیے چھوڑتی ہوں۔
ایک مسلمان جب اپنے مال سے رقم لے کر نکلتا ہے کہ کسی مستحق کی ضرورت پوری کرے اُس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے جتنا قریب ہوتا ہے، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ اپنا وعدہ پورا کرتا ہے کہ جو کوئی اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے گا اللہ اس کی ضرورت پوری کرے گا، اور یہ کہ اللہ اس کی دست گیری اور سرپرستی فرماتا ہے۔ مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑتا۔ خوف اور غم میں اس کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے، اس کو اپنا دوست بناتا اور اس کے دشمنوں کو سزا دیتا ہے۔ خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے اور توفیق دیتا ہے کہ وہ انسان اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا چلا جائے، یہاں تک کہ اپنے رب کے حضور پیش ہوتو حیران رہ جائے کہ اس کے رب نے اس کے لیے کیسی عمدہ قیام گاہ تیار کررکھی ہے۔
فرمانِ نبویؐ کے مطابق مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ خود اس پر ظلم کرتا ہے نہ دوسروں کو اس پر ظلم کرنے کے لیے چھوڑتا ہے۔ دنیا کے تمام رشتے ٹوٹ سکتے ہیں مگر اسلام کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔ حدیثِ نبویؐ ہے ’’تم اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔‘‘
دنیا میں جو شے سب سے بڑھ کر خوشی، سکون اور توانائی دینے والی ہے وہ یہ کہ اللہ کے کسی بندے کی آنکھ کا آنسو پونچھ دیا جائے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’صدقہ دے کر اپنے ایمان کا انتظام کرلو اور زکوٰۃ دے کر مال بچاؤ۔‘‘ ہر انسان اپنی زندگی میں بیشمار خواب دیکھتا ہے، لیکن اللہ کے نزدیک اس پوری کائنات اور اس کی دولت کی حقیقت اتنی بھی نہیں کہ ایک پانی کا گھونٹ۔
انسان کے پاس اصل خوش حالی آتی ہے قرآن کی تلاوت سے، پانچ وقت کی نماز سے، غریبوں کی مدد سے، گناہوں کی معافی سے، صبح تلاوتِ سورہ یاسین سے، شام تلاوتِ سورہ واقعہ سے، اقامتِ دین کی جدوجہد سے۔
انسان کو خوشی دو طرح سے حاصل ہوتی ہے، کچھ حاصل کرکے اور کبھی کچھ گنوا کر۔ حاصل کرکے خوشی ملنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن گنوا کر کیسے؟ مشہور فلسفی ابن طفیل کہتے ہیں کہ لوگو! میں نے وہ راز پالیا ہے جس سے انسانی معاشرہ خوش وخرم رہ سکتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ وہ کیا؟جواب دیا: وہ راز یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز دوسروں کے لیے ہے۔ درخت اپناپھل خود نہیں کھاتا، دریا اپنا پانی خود نہیں پیتا، یہ بہاریں، یہ آبشاریں، یہ نغمے سب دوسروں کے لیے ہی تو ہیں۔ پس پھر زندگی وہی اچھی ہے، جو دوسروں کے لیے ہو۔
اسی طرح حضرت رابعہ بصری فرماتی ہیں کہ کمالِ زندگی کا راز محض اللہ کی عبادت اور حمد و ثنا میں نہیں ہے، یہ کام تو کھربوں مچھلیاں پانی میں اور اربوں پرندے ہوا میں معلق ہوکر ہر دم کرتے ہیں۔ دریافت کیا: تو کمالِ زندگی کا راز کیا ہے؟ حضرت رابعہ بصری نے فرمایا: وہ راز یہ ہے کہ یادِ الٰہی کے ساتھ ساتھ خود تکلیف اٹھا کر اللہ کے بندوں کو راحت پہنچائی جائے، ان کی پرخلوص خدمت کرکے اللہ کی رضاحاصل کی جائے۔
اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے، جو اس کے بندوںکو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو، جب کہ مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کے تین درجے ہیں۔ کم تر درجہ یہ ہے کہ سوال کرے تو حتی الامکان خوشی خوشی اس کی مدد کی جائے۔ دوسرا درجہ بغیر سوال کیے اپنے بھائی کی حاجت کا علم رکھنا اور پھر بن کہے اس کی ضرورت پوری کرنا ہے۔ اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت پر اپنے بھائی کی ضرور ت کو مقدم رکھا جائے۔
یہ صحیح ہے کہ دنیا کے نزدیک کامیابی مال کے بڑھنے میںہے جب کہ اخروی کامیابی کا ذریعہ مال کو گھٹانا ہے۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نفع کا شوق ہوتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نفع کا جنون ہوتا ہے۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نقصان کا ڈر لگا رہتا ہے، اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نقصان کاخدشہ رہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جنت کا حصول مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دینے سے ہے۔ جو مال و دولت اللہ ہمیں دیتا ہے وہ ضروری نہیں کہ سب کا سب ہمارے نصیب کا ہو، اس میں اللہ نے بہت ساروں کا حصہ بھی رکھ دیا ہے اور ہماری آزمائش یہ ہے کہ جس کے مال کے ہم ذمہ دار بنادیے گئے ہیں، اُس تک پہنچاتے ہیں یا قابض بنتے ہیں۔
——