کسی ایک مریض کے علاج پر دو ڈاکٹروں کی یکساں رائے عموماً بہت مشکل ہوتی ہے، لیکن اس بات پر تقریباً سبھی ڈاکٹروں کا اتفاق ہے کہ خواتین، ڈاکٹروں سے اس وقت رجوع کرتی ہیں، جب ان کا مرض آخری حد کو پہنچ چکا ہوتا ہے، جہاں ان کا علاج انتہائی مشکل یا پھر مرض لاعلاج و ناممکن ہوجاتا ہے۔
ہمارے ملک میں ۷۰؍فیصد سے زیادہ خواتین دیہات میں رہتی ہیں، جہاں مناسب طبی سہولتیں میسر نہیں۔ عورتوں کی اکثریت پڑھی لکھی بھی نہیں ہے، اس لیے وہ عورتیں اپنی اور اپنے بچوں کی صحت کے مسائل کا شعور نہیں رکھتیں اور ان کے حل کے لیے جدوجہد نہیںکرسکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر سال ایک لاکھ کے قریب خواتین زچگی کے دوران فوت ہوجاتی ہیں جبکہ پیدائش کے دوران اس سے زیادہ تعداد میں بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس کی وجوہ میں جہا ںغربت، ناخواندگی ، امورِ صحت سے متعلق عدمِ واقفیت اور مناسب طبی رہنمائی اور مدد کی کمی ہے، اس کے ساتھ ہی گندگی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو نہ برت پانے سے متعلق متعدی اور غیر متعدی امراض کی زد میں آنا بھی ہے۔صحیح غذا اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے خون کی کمی کے باعث بھی ماں کو بہت سی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عام طور پر زچگی کے بعد ماں کی جسمانی صحت کے مسائل اس کے نفسیاتی مسائل کے مقابلے میں زیادہ اہمیت اختیار کرلیتے ہیں۔ اگرچہ جسمانی تکالیف زیادہ توجہ طلب ہوتی ہیں۔
عورتوں کی صحت کو بہتر کرنے میں ان کی بیماریوں کا علاج بھی شامل ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان حالات کو درست کیا جائے جن کے باعث عورتوں کو طبی سہولیات تک رسائی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح خواتین کے درمیان صحت اور حفظانِ صحت سے متعلق بیداری، حمل اور دورانِ حمل کے مسائل سے واقف کرانا اور بہتر صحت کے لیے اپنی اور بچوں کی مناسب دیکھ بھال کے امور و مسائل کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔
اس کے علاوہ خواتین کے حالاتِ زندگی کو بھی تبدیل کیا جائے تاکہ انہیں اپنی صحت کو درست رکھنے کا اختیار اور وسائل حاصل ہوسکیں، ایسا ہونے سے نہ صرف عورت کی صحت بہتر ہوگی بلکہ اس سے اس کے خاندان اور پورے معاشرے پر بھی مفید اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک صحت مند عورت ہی اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرسکتی ہے جس سے اس کے بچے بھی صحت مند ہوں گے اور وہ اپنے خاندان کا بھی اچھی طرح خیال رکھ سکے گی، کیوں کہ عورت کی صحت پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔
——