ہنر مندی سے جینے کا ہنر اب تک نہیں آیا
سفر کرتے رہے طرز سفر اب تک نہیں آیا
تلاطم خیز موجوں سے بھی تو نے کچھ نہیں سیکھا
تجھے رونا بھی میری چشم تر اب تک نہیں آیا
ہزاروں فلسفی قبضہ کیے بیٹھے ہیں ذہنوں پر
مرے قابو میں یا رب میرا سر اب تک نہیں آیا
پڑا رہتا ہے ہر دم خون کا سایہ رگ جاں پر
کوئی بے خوف لمحہ بے خطر اب تک نہیں آیا
مگر اک سر پہ ہے سایہ فگن امید کا سورج
ہماری راہ میں کوئی شجر اب تک نہیں آیا
ہمیں تو قافیہ پیمائی کرنا بھی نہیں آتا
بڑا فن ہے جو آجاتا مگر اب تک نہیں آیا
وہ کہتے ہیں دعائیں با اثر ہوتی ہیں خالد کی
میں کہتا ہوں کوئی زیر اثر اب تک نہیں آیا